اولڈ ایج ہوم ایسی جگہ کو کہتے ہیں جہاں ان بد نصیب بزرگوں کو رکھا جاتا ہے جنکے بچے ان کا خیال رکھنے سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں یا جنہیں اب اپنے والدین ہی بوجھ محسوس ہونے لکھتے ہیں۔
چند دہائیاں قبل جب مغرب میں اولڈ ایج ہوم کا تصور سامنے آیا تو اسے بہت تنقید کا سامنا تھا۔لیکن آہستہ آہستہ پاکستان میں بھی یہ تصور کاپی کیا جانے لگا اور بڑے شہروں میں ایسے ہوم کھل گئے جہاں بزرگوں کو رکھا جانے لگا۔
لیکن کیا اپنے گھر میں رہنا ہی انسان کیلئے اولڈ ایج ہوم ثابت ہوسکتا ہے؟ یہ ایک عجب بات ہے لیکن پاکستان میں اب ایسا ہونے لگا ہے۔
بہتر معاشی حالات ، تعلیم اور بہتر زندگی کی کشش کے باعث نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اب پاکستان سے بیرون ملک جا رہی ہے۔ آج سے کچھ عرصہ قبل تک سنا کرتے تھے کہ فلاں بندہ کچھ سال بیرون ملک گزارنے کے بعد پاکستان واپس آگیاہے۔ لیکن اب ملکی حالات اس نہج پر پہنچ چکےہیں کہ جو نوجوان اس ملک سے جاتا ہے اسے پر واپس آنا اپنی توہین لگتا ہے۔
نوجوان شادی کے بعد اپنی شریک حیات اور بچوں کو بھی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور والدین کو چند سال کی یقین دہانی کرادیتے ہیں۔ ایک سال ، دو سال یا بعض اوقات پانچ پانچ سال بھی یہ نوجوان اپنے آبائی علاقوں کو لوٹتے ہیں اور یوں پیچھے بزرگ والدین کیلئے اپنا گھر ہی اولڈ ایج ہوم بن جاتا ہے۔
مزید پڑھیں:والز اور اومور آئس کریم کو ساڑھے سات کروڑ روپے فی کس جرمانہ
کہتے ہیں کہ دادا کا آخری دوست اسکا پوتا ہوتا ہے اور پوتے کا پہلا دوست اس کا دادا ہوتا ہے۔ لیکن یہاں اب ایسا نہیں ہوتا۔ جب چند سال کے بعد نوجوان اپنے گھروں کو لوٹتے تو ان کے بچے اب دادا دادی کو پہچان ہی نہیں پاتے۔
جہاں حکومتیں نوجوانوں کے ملک سے جانے کو صرف بیرون ملک سے پیسے آنا کا ذریعہ سمجھتی ہیں، وہیں بزرگوں کیلئے یہ دل چیر دینے والے لمحات ہوتے ہیں کہ جن بچوں کو انہوں نے بڑھاپے کا سہارا بنا کر پالا تھا وہ اب ان کی وفات پر دفنانے اور بعض اوقات تو وفات کے چند سال بعد ہی صرف فاتحہ کہنے کو آتے ہیں۔ یوں اب گھر کے اندر ہی اولڈ ایج ہوم کھل چکے ہیں جہاں بزرگ اپنے زندگی کے دن پورے کر رہےہیں۔