اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈی چوک احتجاج میں گولی چلانے کے معاملے پر صدر، وزیراعظم سمیت دیگر حکومتی شخصیات سےجواب طلبی کی درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات برقرار رکھتے ہوئے پٹیشنر کو سات دنوں میں اعتراضات دور کرنے کی ہدایت کی ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے آپ نے صدر، وزیراعظم اور وزراء کو فریق بنایا ہوا ہے، کس کے خلاف ڈائریکشنز چاہتے ہیں؟ اخبارات کے تراشوں کی بنیاد پر تو کسی کو ان پرسن نہیں بلاسکتے۔ مجھے یا آپ کوتوتحقیقات نہیں کرنی،یہ اداروں کاکام ہےآپ اپنی رٹ کوباقاعدہ بنائیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے طالب حسین ایڈووکیٹ کی درخواست پر آفس اعتراضات کے ساتھ سماعت کی۔
درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ ڈی چوک احتجاج پر گولی چلانے کے بیانیہ کا نوٹس لے کر اسے سوشل میڈیا سے ہٹایا جائے۔ یہ بیانیہ نا روکا گیا تو ملک کے امن کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ پاک فوج اور اس کے ذیلی ادارے وطن کی محبت سے سرشار اور نظم و ضبط کے زریں اصول کے پابند ہیں۔ عدالت سے استدعا ہے کہ پاک فوج کے بارے میں نفرت انگیز فسادات پر مبنی پروپیگنڈا سے روکا جائے اور ڈی چوک واقعہ کے بارے میں صدر، وزیراعظم، وزیر دفاع اور وزیر داخلہ سمیت دیگر سے جواب طلب کیا جائے۔
مزید پڑھیں:نئی ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے عمران خان کو رہا کرنے کا پہلا باضابطہ مطالبہ
چیف جسٹس نے دوران سماعت استفسار کیا آپ نے رٹ کس نے خلاف دائر کی ہے؟ آپ کیا چاہتے ہیں؟ عدالت کس کو ڈائریکشنز دے؟ آپ نے اپنی درخواست میں صدر، وزیراعظم اور وزرا کو فریق بنایا ہوا ہے۔ درخواست گزار وکیل نے کہا میں نے وزیر اعظم اور وزرا کو اس لیے پارٹی بنایا کیونکہ 26 نومبر والے معاملے میں ملوث ہیں جس کے ثبوت اخبارات موجود ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا ہم اب اخبارات کے تراشوں کی بنیاد پر تو کسی کو ان پرسن نہیں بلا سکتے۔ میں نے یا آپ نے تو تحقیقات نہیں کرنی۔ یہ اداروں کا کام ہے۔ آپ اپنی رٹ کو پراپر بنائیں۔ عدالت نے پٹیشنر کو رجسٹرار آفس کے اعتراضات سات دنوں میں دور کرنے کی ہدایت کر دی ۔