سانحہ اے پی ایس کا نام سنتے ہی جسم کانپنے سا لگتا ہے۔ ننھے بچے جن کے یونیفارم پر ہم ہلکا سا دھبہ نہیں برداشت کر سکتے،انہیں خون سے بھر دیا گیا۔ دشمن نے ہمیں بچوں کی لاشیں دینے کے ساتھ ساتھ اس کام کیلئے جس دن کا اختتام کیا تھا وہ بھی بہت دل دہلا دینے والا تھا کیونکہ اس دن یعنی کہ 16 دسمبر کو پاکستان دو ٹکڑے ہوا تھا۔
ہم نے اے پی ایس واقعہ کے بعد سخت ترین ایکشن لینے کے دعوے کئے، سیاست دان وقتی طور پر مل بیٹھے اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ ان بچوں کی شہادت اسے اگر ہم نے سبق سیکھ کر قبلہ درست کر لیا ہوتا تو شاید زخموں کو وقتی قرار آجاتا۔ لیکن یہاں تو الٹی ہی گنگا بہہ نکلی تھی اور شہید بچوں کے والدین کو جوڈیشل کمیشن کے قیام کیلئے 4 سال تک جدو جہد کرنا پڑی۔
آرمی پبلک سکول کے اس افسوسناک واقعہ میں 132 بچوں سمیت تقریباً 143 افراد شہید ہوئے تھے۔ تاہم اس واقعہ کی انکوائری کیلئے کمیشن بنانے میں ہمیں تقریباً 4 سال لگ گئے۔
مزید پڑھیں:سانحہ اے پی ایس کے زخمی احمد نواز کا بڑا اعزاز
سانحہ اے پی ایس کے شہید بچوں کے والدین کے سالہا سال مختلف فورمز پر احتجاج کے بعد اکتوبر 2018 میں اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے پشاور ہائیکورٹ کے سینئر جج کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن بنانے کا حکم نامہ جاری کیا تھا۔
جسٹس محمد ابراہیم خان پر مشتمل ایک رکنی کمیشن کو چھ ہفتوں میں رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا تھا لیکن افسوسناک طور پر یہ رپورٹ بننے میں تقریباً 20 ماہ لگ گئے۔
جسٹس ابراہیم خان نے والدین، صوبائی حکام، فوجی افسران اور ضلعی انتظامیہ کے تفصیلی بیانات پر مبنی 525 صفحات پر مشتمل رپورٹ جولائی 2020 میں سپریم کورٹ میں جع کرائی تھی۔
صحافی لحاظ علی کے مطابق رپورٹ میں سیکورٹی ناکامی کا اعتراف کیا گیا تھا اور اس بنیاد پر میجر سمیت 5 اہلکار برطرف ہوئے تھے جبکہ حوالدار سمیت 5 سپاہیوں کو 28،28 سال قید کی سزا ہوئی تھی۔
100 سے زائد بچوں کی شہادت کا ذمہ دار چند افراد کو ٹھہرا کر آنکھیں بند کر لینا بھی اچھا طرز عمل نہ تھا لیکن جس طرح شہدا کے والدین کو صرف کمیشن کے قیام کیلئے 4 سال تک دھکے کھانا پڑے وہ اپنے آپ میں بہت افسوسناک عمل ہے۔