افکار علوی حلف نامہ

شاعر افکار علوی نے انتشار کا باعث بننے والی شاعری سے توبہ کر لی

مشہور شاعر افکار علوی نے انتشار کا باعث بننے والی شاعری سے توبہ کر لی۔ تفصیلات کے مطابق سوشل میڈیا پر شاعر افکار علوی کے نام کا بیان حلفی گردش کر رہا ہے جسے سسینئر صحافیوں سمیت سابق صدر پاکستان عارف علوی نے بھی شیئر کیا ہے۔
بیان حلفی میں شاعر افکار علوی نے لکھا کہ میں آئندہ ایسا شعر یا نظم نشر نہیں کرونگا/ نہ پڑھونگا جس سے کسی فرقے یا قومی ادارے کی تضحیک ہو یا انتشار کا باعث بنے۔
صحافی ریاض الحق نے لکھا کہ بھکر سے شاعر افکار علوی نے اداروں اور افراد سے متعلق شاعری سے عہد نامہ لکھ کر توبہ کرلی۔ یہ وہی علوی صاحب ہیں جن کے کئ اشعار بشمول “مرشد ہماری فوج کیا لڑتی حریف سے۔۔۔” مشہور ہوئے تھے۔
سابق صدر عارف علوی بھی افکار علوی کے معاملے پر بول اٹھے ۔ انہوں نے لکھا کہ جب قوم انقلاب کی طرف گامزن ہوتی ہے تو اُس کے ادیب، شعرا اور موسیقار، بُلند افکار سے ایک سحر نو کا جادو بڑی خوبصورتی سے ہوا میں بکھیرتے ہیں جسکی خوشبو ہر دل میں اتر جاتی ہے۔ میں نے عمران خان کی تحریک میں یہ دیکھا کہ سب سے پہلے موسیقاروں نے گیت گائے، ادیبوں نے لکھنا شروع کیا، اور معروف مزاح نگاروں کی تخالیق سامنے آئی ہیں۔ فنون لطیفہ میں ایک نئی سیاسی جہد کی بنیاد پڑ گئی ہے۔ انور مقصود صاحب اپنے طنز اور مزاح سے پاکستان کے ظالمانہ غمگین ماحول میں تبسم بکھیرتے رہے ہیں، ان پر بھی جبر کیا گیا۔ اگر بس چلتا تو معین اختر کو قبر میں نوٹس دے دیا جاتا۔ انقلابی شاعر احمد فرحاد پر بھی ظلم و ستم ہوا، اور اب ابھرتے ہوئے شاعر افکار علوی سے بھی زباں بندی کے افیڈیوٹ پر دستخط لے لیئے گئے ہیں۔ مگرم اِس نوجوان کیا کہ دیا جو آگ لگ گئی؟

مزید پڑھیں:‌پاک نیوی بارے بیان پر معافی؛ کیا انور مقصود اغواء ہوئے تھے؟

ڈاکٹر عارف علوی نے افکار علوی کی نظم بھی شیئر کردی جو کچھ یوں ہے:
بتاؤ! کس کا حکم ہے کہ تم ہمیں عذاب دو، جواب دو
ہمارے ایک ایک زخم کا ہمیں حساب دو، جواب دو

جو لاپتہ کیے، جیتے ہیں یا مر گئے، کہاں کیئے، جواب دو
بہت بڑی قطار ہے، پکار ہے، جواب دو جواب دو

ہمارے دیس میں علوم دینے کے اصول کس نے طئے کیئے
کہ اِس طرف تو اصلحہ اور اُس طرف کتاب دو، جواب دو

حریف دیس کا غلام کون ہے نمک حرام کون ہے
ہمار صبر ختم ہے مزید مت سراب دو، جواب دو

ہمیں بھی ٹھن گئی تو پھر، ہماری چیخ دھاڑ بن گئی تو پھر
سو بہتری اِس ہی میں ہے کہ تشنہ لب کو آب دو، جواب دو

لہو لہو تو ہو چکے ہو، سرخ رو تو ہو مرو، سو لڑ پڑو
حریف کو بھلے جو تم بصورتِ حباب دو، جواب دو

اپنا تبصرہ بھیجیں