پاکستان

آئینی بینچ ڈی چوک واقعہ پر ازخود نوٹس لینے سے انکاری

گزشتہ رات ڈی چوک پر ہونے والے گرینڈ آپریشن کے بعد آنے والی خبریں دل دہلا دینےوالی ہیں۔ کسی بھی ملک میں جب کوئی سانحہ ہو تو عوام کو انصاف کی امید رہتی ہے اور وہ اس کیلئے ملک کے سب سے بڑے انصاف کے ادارے سپریم کورٹ کی طرف دیکھتی ہے۔
سانحہ ڈی چوک پر توقع کی جارہی تھی کہ ایسا کچھ ہوگا کہ عدالت از خود نوٹس لے گی، اور ذمہ دران کے خلاف کارروائی ہوگی۔ تاہم ایسا نہ ہوسکا۔ آج ملک کی سب سے بڑی عدالت کے آئینی بینچ نے معاملے پر کسی بھی قسم کا ایکشن لینے سے ہاتھ کھڑے کر دیئے۔
صحافی احمد وڑائچ کے مطابق خیبرپختونخوا حکومت نے عدالت کے سامنے استدعا رکھی کہ آئینی بینچ کل رات اسلام آباد ہلاکتوں کا از خود نوٹس لے۔
تاہم احمد وڑائچ کے مطابق جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیئے کہ معاملہ ہمارے سامنے سرے سے ہے ہی نہیں، یہ نہیں دیکھ سکتے۔
جسٹس جمال خان مندو خیل نے بھی امین الدین خان کی تائید کی اور بولے کہ معاملہ سامنے نہیں، اس پر بات نہیں کرنا چاہتے۔ جبکہ جسٹس مسرت ہلالی تو اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ گئیں اور انہیں نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی باتیں نہ کریں۔

مزید پڑھیں:‌پی ٹی آئی کا جاں‌بحق افراد کی لاشیں چھپانے کا انکشاف

جسٹس مسرت ہلالی کے ریمارکس کی تصدیق کرتے ہوئے صحافی عدیل سرفراز نے لکھا کہ خیبر پختونخوا حکومت کے وکیل نے گزشتہ روز کے پرتشدد واقعات میں ہلاکتوں پر از خود نوٹس لینے کی استدعا کی تو جسٹس مسرت ہلالی نے یہ کہہ کر خاموش کروا دیا کہ سپریم کورٹ میں پیش ہو کر سیاسی باتیں نہ کریں۔
دوسری جانب میڈیا پر بھی تمام معاملے پر خاموشی جبکہ احتجاجی ختم کرنے کے معاملہ پر میڈیا چینلز اور اخبار طعنہ زنی میں مصروف ہیں۔
جنگ اخبار نے آج کے اخبار کی سرخی لگائی، فائنل کال دینے والے دم دبا کر بھاگ گئے۔ جنگ اخبار کی ہیڈ لائن پر تبصرہ کرتے ہوئے صحافی شاہد اسلم کا کہنا تھا کہ لوگ مارے گئے، درجنوں زخمی لیکن جنگ گروپ مظا ہرین کے لئے دم دبا کر بھاگنے جیسے طعنے لکھ رہا ہے،لعنت ایسی ہیڈلائن بنانے والے پر اور لعنت ایسی صحافت پر۔ افسوس ہوتا ہے کہ اس ادارے کیساتھ کیرئیر کا آغاز کیا اور کئی سال تک کام کیا لیکن اب تو بیڑہ ہی غرق ہوگیا ہے۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button