اہم خبریں

ہر احتجاج کے اولین متاثرین دیہاڑی دار مزدور

جڑواں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی میں گزشتہ تین دن سے معاملاتِ زندگی جمود کا شکار ہیں۔ اپوزیشن جماعت احتجاج کیلئے نکلی ہے اور حکومت ہر ممکن کوشش میں ہے کہ اس احتجاج کو ناکام بنایا جاسکے۔
بظاہر تو ہمیں اس سیاسی انتشار کے یہ دو فریق ہی نظر آتے ہیں لیکن اس کے فریق تین ہیں۔ تیسرا فریق عام عوام ہے جو اس بات سے قطع نظر کے کون حکومت میں ہے کون نہیں اپنی روزی روٹی کمانے کی فکر میں رہتے ہیں۔
یہ دیہاڑی دار مزدور اس احتجاج کے خاموش متاثرین میں سے ایک ہیں۔ جتنے دن کوئی شہر بند رہے گا اتنے دن ہی اس طبقے کا چالہا بھی بجھا رہے گا۔ لیکن پیٹ کی آگ کہاں بھجتی ہے ، اسے تو کسی طور ٹھنڈا کرنا ہے۔
آخر کب تک ادھار اور قرض کے پیسوں پر گزارہ کیا جائے۔ اگر تین سے چار دن سیاسی انتشار کی وجہ سے کام نہ مل پائے تو یومیہ اجرت پانے والا یہ طبقہ ادھار اور قرض پر گزارہ کرےگا۔ اب یہ نہیں کہ چار دن بعد کام ملے گا تو پانچویں دن پچھلے چار روز کی اجرت ملے گی۔ اس روز بھی وہی دیہاڑی ملے گی جو پہلے ملا کرتی تھی۔ یوں اب تکلیف دگنی ہو گئی ہے۔ ایک طرف قرض اور دوسرا طرف روز کا فرض۔

مزید پڑھیں:‌بنی گالہ منتقل ہونے کی آفر

حکومتوں کو چاہیے کہ اگر وہ دیہاڑی دار مزدور کی مدد نہیں کر سکتے تو کم از کم سیاسی لڑائیوں کو ایوان اقتدار تک محددو رکھے۔ اقتدار جس کا حق ہو اسے سونپ دیا جائے تاکہ اس کے غریب دوست ہونے کے نعروں کو پرکھا جاسکے۔
سیاسی انتشار کے ان متاثرین کو جب لمبے عرصے تک کچھ دکھائی نہ دے تو مجبوراً عزت نفس سائیڈ پر رکھ کر بھیک کو ذریعہ معاش بنانا پڑتا ہے اور اسکا ویسے میں پاکستان میں بہت زیادہ سکوپ ہے۔
ظاہر ہے کہ جب آئے روز کے سیاسی انتشار رزق حلال کی راہ میں رکاوٹ بنیں گے تو اس کے علاوہ اور راستہ کیا بچے گا کہ بھیک کا راستہ اپنایا جائے۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button