
گزشتہ روز عمران خان سے ملاقات کرنے اور ان کے احوال اپنے سوشل میڈیا پر شیئر کرنے والے علی اعجاز بٹر اب عمران خان سے نہیں مل پائیں گے۔ نعیم حیدر پنجھوتہ نے اپنے ایک پیغام میں بتایا کہ آج علی اعجاز بٹر کو جیل کے اندر جانے سے روکا گیا۔
نعیم پنجوتھہ کا کہنا تھا کہ میرے ساتھی بھائی علی اعجاز بٹر ایڈووکیٹ کو اڈیالہ جیل اندر نہیں جانے دیا گیا،اس کی وجہ یہ ہے کہ کل اس نے عمران خان نے سے مل کر خان کا پیغام باہر دیا تھا، ٹویٹ کیے تھے ، خان کے ساتھ جیل میں کیے جانے والا سلوک بتایا تھا ،عمران خان کی آفیشل ٹیم کو آگاہ کیا تھا اور انہوں نے عمران خان کے اکاؤنٹ سے عمران خان کا میسج ٹویٹ کیا تھا۔
نعیم پنجھوتہ نے مزید کہا کہ اس وجہ سے آج اندر نہیں جانے دیا گیا ،یعنی اگر جیل جانا ہے تو چپ کر کے باہر نکل آو خان کا پیغام نہ دو ،انتظار بھائی آج اسی وجہ سے غائب ہیں کہ وہ بھی رابطہ تھے خان اور عوام اور پارٹی میں ،خان کا میسج جو پہنچاۓ گا اس سے تکلیف ہو گی .چاہے وہ پارٹی کوہو ، چاہے عوام کو ہو ، چاہے میڈیا سے بات کرنے کے حوالے سے ہو۔
پی ٹی آئی وکیل رہنما نے مزید کہا کہ انتظار پر اور میرے پر بھی کافی عرصہ کاٹا لگایا گیا پھر ہم ہائی کورٹ گئے اور عدالت نے کمیشن مقرر کیا اس کے باجود روک لیا جاتا تھا ،مجھے بھی روکنے کی وجہ یہ ہی ہوتی تھی کہ باہر میڈیا سے بات کر کے خان کا پیغام قوم تک پہنچاتا ہوں ،ٹویٹ کرتا ہوں۔ہم نے واضح کہا اس وقت بھی کہ کاٹا لگوا سکتے ہیں لیکن خان کے نام پر کمپرومائز نہیں کریں گے اور آج بھی الحمدللہ اپنے اصول موقف پر قائم کھڑے ہیں .اگر علی بٹر کل باہر کچھ نہ بتاتا تو آج جیل میں خان کے پاس بیٹھا ہوتا۔
مزید پڑھیں:جیل ملاقات میں نواز شریف کی بیرون ملک روانگی پر عمران خان نے کیا کہا
نعیم پنجھوتہ نے واضح کیا کہ آج جو دوست اندر گئے ہیں امید کرتے ہیں وہ باہر آکے ہر بندہ بات کرے گا ،اگر وہ بات کرے گا تو کل ان پر پابندی ہو گی۔
نعیم پنجوتھہ نے مزید کہا کہ میں تو واضح کہتا ہوں کہ اتحاد ہو سب طے کر لیں کہ ہم میں سے ہر ایک باہر بات کرے گا اگر پابندی لگاتے ہیں تو سب پر لگائیں پھر ہم عدالت کے ذریعے خان تک رسائی حاصل کریں ،اگر کسی ایک آدھ کو اندر جانے بھی دیتے ہیں تو ہمیں اندر نہیں جانا چاہے جب تک تمام لوگوں کو اجازت نہ ہو۔
نعیم حیدر پنجوتھہ کے ٹویٹ پر جواب دیتے ہوئے علی اعجاز بٹر نے لکھا کہ جنگل کا قانون ہے ۔میں کل جیل سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کروگا۔