اہم خبریں

الوداعی ڈنر سے معذرت؛ قومی خزانے کی بچت یا ذاتی تشہیر

گزشتہ روز چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی حوالے سے ایک خبر زیر گردش رہی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ چیف جسٹس نے اپنی ریٹائرمنٹ کے موقع پر سرکاری خرچ پر الوداعی ڈنر لینے سے معذرت کر لی ہے۔
چیف جسٹس نے سپریم کورٹ بار کی جانب سے عشائیے کی دعوت قبول کر لی ہے جبکہ سپریم کورٹ میں 25 اکتوبر کو دن ساڑھے دس بجے فل کورٹ ریفرنس کا اہتمام کیا جائے گا۔
خبر سامنے آنے کے بعد صحافیوں کی جانب سے دو طرز کا رویہ دیکھنے کو ملا۔ چند صحافیوں نے چیف جسٹس کے اس عمل کو سونے میں تولتے ہوئے اسے بہترین طرز عمل قرار دے دیا۔ اور قومی خزانے میں بچت کیلئے چیف جسٹس کی خدمات کو سراہا۔
دوسری جانب صحافیوں نے چیف جسٹس کے اس فیصلے کو ذاتی تشہیر قرار دے کر اپنی وضاحت پیش کردی۔
اس حوالے سے صحافی اے وحید مراد نے لکھا کہ ایک سادہ اور عام سوجھ بوجھ کی بات ہے کہ الوداعی ڈنر جانے والے کو پیچھے رہ جانے والے یا نئے آنے والے دیتے ہیں۔ ابھی تک یہی روایت رہی ہے کہ جانے والے چیف جسٹس کے اعزاز میں الوداعی تقریب کا میزبان نیا چیف جسٹس ہوتا ہے۔ اب نئے چیف جسٹس کا نوٹیفکیشن نہیں ہوا تو وہ جانے والے کے لیے الوداعی ڈنر کا دعوت نامہ بھی جاری نہیں کر سکتے۔ ایسے میں جانے والے کا ’20 لاکھ کی بچت کا نسخہ‘ ذاتی تشہیر کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔

مزید پڑھیں:الوداعی تقریبات کی تیاریاں ، سپریم کورٹ کا کیٹرنگ سامان کا آرڈر

وحید مراد نے مزید کہا کہ 20 لاکھ کی بچت کے نسخے والے نے سپریم کورٹ کے فرنٹ لان کو کھود کر کروڑوں روپے کی لاگت سے ایسے کمرے بنانے کی بنیاد ڈالی جن کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ پہلے ہی اصل عمارت کے بلاکس میں بہت سی جگہ پڑی ہوئی ہے۔
صحافی صدیق جان نے انکشاف کیاکہ ساتھی ججز نے قاضی فائز عیسیٰ کیلئے الوداعی عشائیہ میں شرکت سے واضح طور پر انکار کر دیا تھا تو قاضی نے ہزیمت سے بچنے کیلئے فیصلہ کیا کہ بہتر ہے عیشائیہ نہ لوں۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما میاں اسلم اقبال نے لکھا کہ قوم کا چالیس ارب روپیہ الیکشن میں برباد کرنے کے بعد بالآخر چیف جسٹس کو بیس لاکھ بچانے کا خیال آ گیا اس پر انکی مہربانی۔
رہنما تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ اس غریب قوم کا چالیس ارب لگا بھی ، دھاندلی کے ذریعے جمہوریت کو پاوں تلے روند دیا گیا فارم 47 والوں کو قوم پر مسلط کیا گیا اور اب فنکاری کے لیے 20 لاکھ روپیہ بچا کر قوم پر احسان عظیم کیا جا رہا ہے ۔ آپ کو قوم کے پیسے کی اتنی ہی فکر ہوتی تو اپنے غلط فیصلوں سے الیکشن کے پورے عمل پر سوالیہ نشان کھڑے نہ کرتے

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button