سائنس اور ٹیکنالوجی

گوگل کو 51.7 ملین ڈالر کا جرمانہ

گوگل جیسے بڑے ادارے بھی صارفین کی پرائیویسی کا دھیان نہیں رکھ پار ہے ہیں جو کہ قابل فکر بات ہے۔

گوگل جنوبی کوریا کے پرسنل انفارمیشن پروٹیکشن کمیشن (PIPC) کی طرف سے عائد کردہ 69.2 بلین وان ($51.7 ملین) جرمانے کو چیلنج کر رہا ہے، جو مبینہ طور پر پرسنل انفارمیشن پروٹیکشن ایکٹ کی خلاف ورزیوں پر عائد کیا گیا ہے۔

گوگل یہ  قانونی کارروائی کا سامنا اس لئے کر رہی ہے کیونکہ اس کے اکاؤنٹ سائن اپ کے عمل میں پہلے سے منتخب کردہ رضامندی کے آپشنز کے استعمال پر اعتراض کیا گیا ہے، جس کے بارے میں کمیشن کا دعویٰ ہے کہ یہ صارفین کو ہدف شدہ اشتہارات کے لیے ڈیٹا اکٹھا کرنے پر رضامندی دینے میں گمراہ کرتا ہے۔

 

گوگل کو جرمانہ:

29 اگست کو سیول ایڈمنسٹریٹو کورٹ میں چھٹی سماعت کے دوران، گوگل اور PIPC دونوں نے یہ دکھایا کہ رجسٹریشن کے دوران صارفین کو کیسے پرائیویسی ترجیحات کو منظم کرنے کا کہا جاتا ہے۔

تنازعے کا مرکزی نقطہ "مزید آپشنز” کا فیچر ہے، جو "پرائیویسی اور شرائط” کے سیکشن کے تحت ظاہر ہوتا ہے اور صارفین سے فعال طور پر یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ رویوں سے متعلق ڈیٹا کے اشتراک—جیسے کہ براؤزنگ اور سرچ ہسٹری—سے انکار کریں جو ذاتی نوعیت کے اشتہارات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

 

مزید پڑھیں:پاکستان میں 5 بہترین ٹیک بزنس آئیڈیاز

 

PIPC کا کہنا ہے کہ یہ طریقہ معلوماتی رضامندی کو کمزور کرتا ہے کیونکہ صارفین کو آؤٹ ہونے کے لیے پہلے سے منتخب کردہ آپشنز کو دستی طور پر ڈی سلیکٹ کرنا پڑتا ہے، جو کمیشن کے مطابق جنوبی کوریا کے ڈیٹا پروٹیکشن قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ گوگل کا رضامندی کا طریقہ کار یورپ سے مختلف ہے، جہاں ڈیٹا کا اشتراک پہلے سے منتخب نہیں ہوتا۔

تاہم، گوگل نے اپنے عمل کا دفاع کیا، دلیل دیتے ہوئے کہا کہ اس نے قانونی طریقہ کار پر عمل کیا اور یہ کہ صارفین کی رضامندی کو محفوظ بنانا ان ویب سائٹس یا ایپس کے آپریٹرز کی ذمہ داری ہے جو گوگل کے ڈیٹا اکٹھا کرنے والے ٹولز کا استعمال کرتی ہیں۔

کمپنی نے عدالت کے سابقہ فیصلوں کا حوالہ دیا جو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اگر صارفین کو کلیدی شرائط سے آگاہ کیا جائے تو رضامندی درست ہے، اور مزید کہا کہ "مزید آپشنز” کا فیچر صارفین کو رجسٹریشن کے دوران رضامندی واپس لینے کی اجازت دے کر ان کے ڈیٹا کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت کو بہتر بناتا ہے، بجائے اس کے کہ بعد میں یہ اختیار دیا جائے۔

کیس جاری ہے کیونکہ گوگل اس بڑے جرمانے کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن اس کیس نے ایک بار پھر یہ بحث چیھڑ دی ہے کہ کیسے ٹیک کمپنیاں اور گوگل جیسے بڑے ادارے بھی صارفین کے ڈیٹا کو محفوظ کرنے کی بجائے پرائیویسی توڑنے میں ملوث پائے جاتے ہیں۔

مختلف ترقی پذیر ممالک میں تو ان کمپنیوں پر اس لئے اعتراض نہیں اٹھایا جاتا کہ ایسے ممالک کو  یہ خطرہ لاحق رہتا ہے کہ گوگل ان کیلئے یہ سہولت ختم نہ کردے۔

گوگل کو ایک روسی عدالت میں بھی ایسے ہی مقدمے کا سامنا ہے جس کا فیصلہ جلد آنے اور اس میں گوگل کو بھاری جرمانہ ہونے کے امکانات ظاہر کئے جارہے ہیںَ

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button