اسد قیصر نے پی ٹی آئی کے مخالفوں کو دوستوں میں کیسے بدلا

ایک مدبر اور دور اندیش سیاستدان اور جذباتی ٹولے میں اگر فرق سمجھنا ہو تو اُسکی مثال اسد قیصر ہیں۔ 8 فروری الیکشن میں عوامی ووٹوں کے برعکس جب حکومت بنی تو اسد قیصر کو سمجھ آگئی تھی کہ یہ سسٹم ہمیں کسی صورت قبول کرنے کو تیار نہیں۔
اسد قیصر نے واویلا کرنے کے بجائے حالات کا ادراک کرتے ہوئے فوری طور پر اپنے اتحادی ڈھونڈنے شروع کیے۔ کیونکہ دشمن کو کمزور کرنے کیلئے آپکو دوست بنانے پڑتے ہیں دنیا میں کوئی کام اکیلا نہیں ہوسکتا ۔
ماضی کی جنگوں سے لیکر موجودہ دور کے جنگوں کے حالات کا جائزہ لیں تو وقت کی سپر پاور بھی اپنے دشمن کو شکست دینے کیلئے اتحادی ڈھونڈتی ہے۔ اسد قیصر نے ماضی کی تمام رنجشوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے محمود خان اور مولانا فضل الرحمان کی جانب توجہ دی۔
سیاست اور جمہوریت میں کامیابی یہ نہیں ہوتی کہ آپ اپنے دوست کو ہمنوا بنائیں بلکہ اصل کامیابی یہ ہوتی ہے کہ آپ کا بدترین مخالف بھی آپکے ساتھ چل پڑے کیونکہ جمہوریت میں بندوں کو گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا آپکو ہر صورت اپنی گنتی پوری کرنی ہوتی ہے۔
مزید پڑھیں:خبردار! مولانا کے بارے زبان سنبھال کر استعمال کریں
8 فروری کے فوری بعد اسد قیصر نے محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمان سے جب ملاقاتیں شروع کی تو عام عوام کے ساتھ ساتھ کچھ پی ٹی آئی کے جذباتی پارٹی رہنماؤں نے بھی اسد قیصر کو برا بھلا کہنا شروع کردیا۔
ان رہنماؤں کا مؤقف تھا کہ ہمارے پاس تو مینڈیٹ ہے ہمیں کیا ضرورت کسی اور کے در پر جانے کی۔ لیکن اسد قیصر عمران خان صاحب سے مذکرات کا مینڈیٹ لیکر سر جھکا کر لگے رہے م۔حمود خان اچکزئی تو جلدی مان گئے لیکن مولانا فضل الرحمان کے ساتھ چونکہ ماضی میں پی ٹی آئی کی زیادہ تلخی رہی تو وہ آسانی سے نہیں مان رہے تھے لیکن اسد قیصر لگے رہے اپنی کوششوں میں اور بلآخر اُنکی کوششوں کا نتیجہ آپ نے غیر آئینی ترامیم کو روکنے کی صورت میں دیکھ لیا ۔
بلاشبہ پی ٹی آئی اور جمعیت نے اِن آئینی ترامیم کو روک کر پاکستان کو بڑی تباہی سے وقتی طور پر بچا لیا ۔ مستقبل کا اللہ جانے۔ لیکن اگر فضل الرحمان اور پی ٹی آئی کا اتحاد جاری رہتا ہے تو یہ پاکستان کے مستقبل کیلئے بہترین ہوگا۔