پاکستان

سیاسی جماعتوں کے بائیکاٹ میں‌میڈیا کی دوغلی پالیسی

پاکستان میں ان دنوں صحافتی تنظیمیں پاکستان تحریک انصاف کی پریس کانفرنسز کا بائیکاٹ کر رہی ہیں ۔ گزشتہ روز سلمان اکرم راجہ کی پریس کانفرنس کے درمیان بھی صحافیوں نے اپنے مائکس اٹھا لیے۔
یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے 8 ستمبر کے جلسے میں صحافیوں کے حوالے سے کچھ نازیبا گفتگو کی جس میں انہوں نے نام لئے بغیر کچھ صحافیوں کو لفافی سمیت کئی القابات سے نوازا۔
اس وقت انہوں نے نام لیئے بغیر غریدہ فاروقی کو بھی تنقید کا نشانہ بناتا، تاہم گزشتہ روز انہوں نے وضاحت کے ساتھ نام لے کر غریدہ فاروقی پر تنقید کی۔ صافتی تنظیمیں ان سے معافی کا مطالبہ کر رہی ہیں اور پی ٹی ائی کا بائیکاٹ کر رہی ہیں۔
جہاں اس بات میں دو رائے نہیں کہ صحافیوں کو عزت سے نوازا جانا چاہیے تاہم اس حوالے سے صحافیوں کی پالیسی دوغلی ہے۔
اسی حوالے سے جب پی ٹی آئی رہنما کسی ٹاک شو میں شریک ہوتے ہیں اور انہیں علی امین گنڈا پور کی بات پر وضاحت کرنے کو کہا جاتا ہے اور وہ بدلے میں مریم نواز کی گفتگو چلاتے ہیں تو انہیں ایسا کرنے سے روکا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ مریم نواز صحافیوں کو ہتک آمیز القابات سے نوازتی آئی ہیں۔ ایک موقع پر انہوں نے صحافیوں کو بھونکنے والے کتے تک کہہ دیا تھا۔ جبکہ نون لیگ کے رہنما رانا ثنا اللہ بھی صحافیوں کے حوالے سے نازیبا گفتگو کرتے رہے ہیں۔
جہاں کسی بھی سیاسی جماعت کی جانب سے کی گئی صحافیوں کے بارے میں توہین آمیز گفتگو کا دفاع نہیں کیا جا سکتا وہیں صحافیوں کی دوغلی پالیسی کا بھی دفاع نہیں کیا جا سکتا ۔

مزید پڑھیں:‌پی ٹی آئی رہنما شاہد خٹک صحافیوں کیلئے درد سر کیوں بن رہے ہیں

اس حوالے سے علی امین گنڈا پور اور پی ٹی آئی وضاحت کر چکی ہے کہ ان کی مراد وہ اینکرز تھے جنہوں نے پی ٹی آئی چھوڑ کر جانے والے اور جبری گمشدگیوں کے بعد آنے والے افراد کے انٹرویوز کئے۔
ماضی میں دیکھا جائے تو یہی صحافتی تنظیمیں عمران ریاض خان کے جبری اغوا پر خاموش رہیں اور ایسے حکومتی پریس کانفرنس کا بائیکاٹ نہیں کی۔ا اسی طرح آج کل صحافی اوریا مقبول جان بھی زیر حراست ہیں اور ان پر تشدد کی خبریں بھی ا رہی ہیں تاہم ان کے حوالے سے بھی کوئی صحافی آواز نہیں اٹھا رہا ہے۔
یہ تو زندہ صحافیوں کی بات ہو رہی ہے، صحافی برادری اپنے قتل کئے جانے والے دوست ارشد شریف کو بھی اج تک انصاف نہیں دلوا سکی ہے یہی وجہ ہے کہ میڈیا کا صرف ایک پارٹی کے بائیکاٹ کو دوغلی پالیسی قرار دیا جارہا ہے۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button