
عدالتی فیصلوں پر سیاسی جماعتوں کا آپس میں لڑنا عام سی بات ہے جس میں حق میں آنے والی جماعت فیصلے پر داد دیئے بغیر نہیں تھکتی جبکہ جس جماعت کے خلاف یہ فیصلہ آتا ہے وہ فیصلہ دینے والے ججز کے خلاف ہر حد تک جاتی دکھائی دیتی ہے۔
تاہم عدالتی فیصلی پر صحافیوں کا آپس میں تو تو میں میں کرنا حیران کن بات ہے۔ لیکن سپریم کورٹ کےججز اور سیاسی جماعتوں کے علاوہ اب کورٹ رپورٹرز میں بھی دو حصے بن چکےہیں۔
ایک حصہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ہم خیال ججز کے حق میں جبکہ دوسرا صحافتی حصہ بقیہ ججز کے حق میں دکھائی دیتا ہے۔
مخصوص نشستوں کے کیس کا فیصلہ آئے تقریباً 2 ماہ ہونے کو ہیں لیکن اب تک تفصیلی فیصلہ نہیں آیا ہے۔
اس حوالے سے صحافی ثاقب بشیر نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر لکھا کہ میرے خیال میں 25 اکتوبر تک تو ہر صورت تفصیلی آجانا چاہیے اس سے زیادہ دیر نہیں ہونی چاہیے۔
یاد رہے کہ یہ دن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کا روز ہے۔
انہیں جواب دیتے ہوئے قاضی فائز عیسیٰ کے قریب سمجھے جانے والے صحافی عمران وسیم نے لکھا کہ بھائی آپ تو ہمیشہ فیصلہ کا جلد آنے کا الم بلند کرتے ہیں جلدی فیصلہ سنانے/ جاری کرنے کا بیڑہ لگاتے ہیں مخصوص نشتوں کے تفصیلی فیصلہ پر آپ کو جلدی کیوں نہیں ہے کیا وجہ ہے؟ آپ کو تو کہنا چاہیے تفصیلی فیصلہ جلد آئے۔
مزید پڑھیں:عمران خان کا وہ کیس جو تین عدالتوں میں فٹبال بنا ہے
اس پر صحافی ثاقب بشیر نے جواب دیا کہ 25 اکتوبر تک کا مطلب ہے اس سے پہلے آنا چاہیے بے شک اگلے ہفتے آ جائے۔
میں تو پہلے بھی کہتا ہوں تفصیلی فیصلہ بھی اور فیصلہ بھی جلد آنا چاہیے ۔اب آپ خود ہی دیکھ لیں آپ کو خبر بھی ہوتی ہے جو میرے پاس نہیں۔ چیف صاحب کی سربراہی میں بنچ نے 6 جون کو نیب ترامیم اپیل پر فیصلہ محفوظ کیا تھا تین ماہ ہونے کو ہیں، وہاں تفصیلی کیا، ابھی تک فیصلہ بھی نہیں آیا۔ ویسے پتہ تو کریں وہ کہاں رہ گیا ؟
اس سے قبل تو فیصلے میں تاخیر پر باقاعدہ جسٹس اطہر من اللہ کا نام لکھ کر ذکر کیا گیا تھا۔
صحافی سہیل رشید نے ثاقب بشیر کے ٹویٹ پر رد عمل دیتے ہوئے لکھا کہ جی بالکل، انٹرنیٹ کی اسپیڈ اکتوبر میں بحال ہوتے ہی تفصیلی فیصلہ اپلوڈ ہونا چاہیے۔ یاد رہے کہ پی ٹی اے نے پاکستان میں اکتوبر تک انٹرنیٹ سپیڈ سلو رہنے کا دعویٰ کیا ہے۔