عوام

پاکستان میں فوڈ ڈیلیوری بزنس گھاٹے میں کیوں جارہاہے

پاکستان میں دن بدن بڑھتی بے روزگاری کے باعث اب ایک بڑی آبادی فوڈ ڈیلیوری اور بائیکیا سروس چلانے پر مجبور ہیں جن میں سے زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے۔ بے روزگاری سے بھرے ملک میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت ایسے لوگوں کو سپورٹ کرتی اور انکے لئے سہولت پیدا کرتی تا کہ وہ اس سروس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے لئے باعزت روزگار پیدا کرے ۔ لیکن حکومت کی جانب سے فوڈ ڈیلیوری سے منسلک افراد کی پریشانیوں میں اضافہ کیا جارہا ہے۔
جی ہاں پاکستان میں فوڈ ڈیلیوری کا بزنس اب گھاٹے میں جا رہا ہے کیونکہ انٹرنیٹ کی بندش اور سلو سپیڈ نے اس روزگار سے وابستہ افراد کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔
فوڈ ڈیلیور کرنے والے رائیڈرز ہوں یا یہ سروس دینے والی کمپنی، سب کا انحصار انٹرنیٹ پر ہے۔ شہری انٹرنیٹ کی موجودگی میں آرڈر کرتے ہیں جسے کمپنی انٹرنیٹ کے ذریعے پراسس کرتی ہے اور پھر رائیڈر انٹرنیٹ کے ہی استعمال سے متعلقہ افراد تک انکا آرڈر پہنچاتے ہیں۔
لیکن گزشتہ ایک ماہ سے سلو انٹرنیٹ اور واٹس ایپ سروس میں تعطل کی وجہ سے فوڈ ڈیلیور کرنے والے رائیڈر سخت پریشانی کا شکار ہیں۔

مزید پڑھیں: وہ ہاؤسنگ سوسائٹی جس میں انویسٹمنٹ آپ کیلئے سردرد بن سکتی

اس حوالے سے رائیڈرز کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کی سلو سپیڈ یا بندش کی وجہ سے انہیں کسٹمرز کی طرف سے تکرار سننا پڑتا ہے جبکہ بہت سے آرڈر واپس بھی ہوجاتے ہیں جس سے انہیں کافی نقصان پہنچتا ہے۔
کھانے کی ڈیلیوری سے جڑے ایک بزنس کے ترجمان کے مطابق عموماً ٹیکنیکل طرز کے آرڈز کی صورت میں متعلقہ رائیڈر کو واٹس ایپ پر وائس نوٹ بھیجا جاتا ہے لیکن گزشتہ چند دنوں سے واٹس ایپ کی سروس میں تعطل کی وجہ سے بزنس کا کافی نقصان ہورہا ہے۔
کھانے کی ڈیلیوری کرنے والے رائیڈرز کا کہنا ہےکہ حکومت اگر انہیں روزگار کے مواقع فراہم نہیں کرسکتی تو کم از کم ان کی اپنی طرف سے کی گئی کوشش کو تباہ نہ کیا جائے۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button