دنیا

شہباز حکومت اور حسینہ حکومت میں قدر مشترک کیا ہے

بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد اب سابق وزیر اعظم بن چکی ہیں۔ عوامی احتجاج پر طاقت کے استعمال نے ان کی حکومت کا دھڑن تختہ کر دیا۔ اب وہ بھارت میں بھاگ چکی ہیں جہاں ممکنہ طور پر وہ سیاسی پناہ بھی لیں گی۔
4 بار وزیر اعظم رہنے والی شیخ حسینہ حکومت اور پاکستان میں شریف خاندان کے زیر اثر بننے والی حکومت میں چند قدریں مشترک ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔
پہلی قدر مشترک یہ ہے کہ شیخ حسینہ کی جنوری 2024 میں ہونے والے الیکشن میں شیخ حسینہ کی جیت ہو یا فروری 2024 میں ن لیگ (شہباز حکومت) کی جیت، دونوں الیکشن متنازع تھے اور آج بھی ان پر سوالیہ نشان ہیں۔
دوسری قدر مشترک یہ ہے کہ حسینہ حکومت نے بھی عوام کی مقبول پارٹی جماعت اسلامی پر پابندی لگا کر انتخابات میں حصہ لیا اور ایسا کچھ شہباز حکومت نے بھی پی ٹی آئی کے ساتھ کر کے بھی الیکشن لڑا۔ اگرچہ الیکشن میں پی ٹی آئی کو حصہ لینے کا موقع ملا اور وہ جیت بھی گئے لیکن انہیں حکومت بنانے کا موقع نہ ملا۔

مزید پڑھیں:‌چار بار کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد، جسے آخری خطاب کا موقع بھی نہ ملا

تیسری قدر مشترک دونوں حکومتوں کا اپنے خلاف ہونے والے احتجاج کو دہشت گردی قرار دینا ہے اور احتجاج کرنے والوں پر طاقت کا استعمال ہے۔ اس پر سینئر صحافی صدیق جان کہتے ہیں کہ شہباز شریف صاحب حسینہ واجد کے انجام سے عبرت پکڑیں اور آرام سے مستعفی ہو جائیں۔
چوتھی قدر مشترک دونوں حکومتوں کا عوامی طاقت کو کمتر سمجھنا ہے۔ شیخ حسینہ واجد بھی عوامی طاقت کو غیر اہم سمجھتی تھیں اور شہباز حکومت بھی عوامی غیر مقبولیت کی حدوں کو چھو رہی ہے۔
پانچویں قدر مشترک آزادی اظہار رائے پر قدغن ہے۔ حسینہ حکومت بھی سوشل میڈیا پر آزادی اظہار رائے کی حامی نہیں تھیں۔ یہی وجہ تھی کے ملک بھر میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ایپ پر پابندی لگا کر بربریت جاری رکھی گئی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ چار بار کی وزیر اعظم کو آخری بار تقریر کی اجازت بھی نہ ملی۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button