اہم خبریں

جیل میں ایک سال؛ پارٹی عمران خان کو کیوں نہ چھڑا سکی

5 اگست 2023 پاکستان تحریک انصاف اور خصوصاً عمران خان سے محبت کرنے والوں کیلئے تکلیف دہ دن تھا۔ اس دن توشہ خانہ فوجداری کیس میں عمران خان کو جج ہمایوں دلاور کی جانب سے سزا سنائے جانے کے بعد ان کی رہائش گاہ زمان پارک سے گرفتار کیا گیا۔
عمران خان کو ابتدائی طور پر اٹک جیل میں رکھا گیا اور بعدازاں انہیں اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد امید لگائی جارہی تھی کے ہائی کورٹ سے فیصلہ ٹرن ہو جائے گا یا معاملہ سپریم کورٹ تک چلا جائے گا اور عمران خان کو رہائی مل جائے گی۔ تاہم ایسا نہ تھا۔
ان کی گرفتاری کے دن شہراقتدار سمیت ملک بھر میں محض رسمی سا احتجاج ہوا جو یہ ثابت کر رہا تھا کہ 9 مئی اور اس کے بعد ہونے والے کریک ڈاؤن سے اب پی ٹی آئی ویسی سٹریٹ پاور دکھانے سے گریز کر رہی ہے۔
دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ عمران خان کے بعد جوش و ولولہ رکھنے والے اور عوام کو گھروں سے احتجاج تک لانے والے مراد سعید، حماد اظہر، علی محمد خان وغیرہ یا تو روپوش تھے یا پابند سلاسل تھے۔
یہ وہ دور تھا جب عمران خان کو پارٹی کی تنظیم نو کی ضرورت بھی درپیش تھی کیونکہ وہ جیل میں تھے اور کوئی ایسا شخص سامنے رکھنا تھا جو پارٹی کے امور چلائے۔
اس دوران عمران خان نے بیرسٹر گوہر کو بطور چیئرمین منتخب کرتے ہوئے پارٹی کی تنظیم نو شروع کی۔ لیکن اس دوران عمران خان پر سائفر کیس، عدت کیس جیسے بڑے کیس بنائے جانے لگے اور دنوں میں رہائی کا معاملہ مہینوں سے ہوتا ہو سال تک پہنچ گیا۔
اس دوران شیر افضل مروت وہ واحد انسان ثابت ہوئے جو لوگوں کو سڑکوں پر لانے کیلئے کامیاب ہو جاتے لیکن انہیں پارٹی کے اندر سے سپورٹ حاصل نہ تھی اور عمران خان بھی انہیں محتاط رہنے کی ہدایت کر رہے تھے۔
گزشتہ دنوں بشریٰ بی بی نے صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ عمران خان جب جیل گئے تو وکیل رہنماؤں نے منہ موڑ لئے۔

مزید پڑھیں:‌جسٹس عامر فاروق کے خلاف عمران خان کی چال کام کر گئی

یوں بظاہر میڈیا پر تو پی ٹی آئی سے وابستہ وکلاء بڑھکیں مارتے تھے لیکن اندر خانہ وہ عمران خان کے کیسز اس طرح نہیں چلارہے تھے جیسے چلانا درکار تھا۔
اس دوران عمران خان کے ذاتی کیسز کے ساتھ بشریٰ بی بی کی گرفتاری اور پھر سیاسی نوعیت کے مقدمات نے بھی معاملہ مزید پیچیدہ کر دیا۔
الیکشن سے قبل بلے کے نشان کا کیس ہو یا پی ٹی آئی کے الیکشن کیلئے نامزد رہنماؤں کے اغواء، پارٹی کے وکلاء کبھی ایک پیج کر نظر نہیں آئے۔
یہی وجہ تھی کہ جب عمران خان کو عدت کیس میں بھی بری کر دیا گیا اور اس وقت بظاہر ان پر کوئی کیس نہ تھا جس میں پولیس نے گرفتاری نہ ڈالی ہو، تو وکلاء نے ان 9 مئی کے کیسز کو ہلکا لے لیا جنہیں جواز بنا کر انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔
آج عمران خان جیل میں ایک سال مکمل کر چکے ہیں لیکن پی ٹی آئی کے پاس اب بھی کوئی واضح حکمت عملی نہیں۔ واضح پلان دور کی بات، وکلاء‌انہیں‌وہ ضروری سہولیات مہیا نہیں‌کراسکے جو بطور سابق وزیر اعظم ان کا حق تھا۔ دوسری جانب حکومتی اراکین اور اسٹیبلشمنٹ کے قریبی صحافی یہ برملا کہتے پھر رہے ہیں کہ عمران خان کو لمبے عرصے تک جیل میں رکھنے کا پلان ہے۔
اور ادھر پی ٹی آئی کا بطور پارٹی یہ حکمت عملی ہے کہ آج تک پارٹی اسلام آباد میں جلسے کیلئے انتظامیہ کے ساتھ این و سی ، این و سی کھیل رہی ہے۔ پارٹی کیلئے لوگوں کو باہر نکالنے والے شیر افضل مروت کو پارٹی سے راہیں جدا کرنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button