
لاپتہ افراد کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ سے حوصلہ افزاء خبر سامنے آئی ہے اور یہ خبر جسٹس محسن اختر کیانی کی سربراہی میں بننے والے لارجر بینچ کی جانب سے ہے جس میں جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس طارق محمود جہانگیری شامل ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کےاس لارجر بینچ نے تمام لاپتہ افراد کےکیسز سن کر منطقی انجام تک پہنچانے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ ایک حوصلہ افزاء بات ہے۔
اس کیس کی ابتداء شاعر احمد فرہاد کی جبری گمشدگی کے بعد ہوئی جس میں جسٹس محسن اخترکیانی نے سماعت شروع کی اور سخت ریمارکس دیتے ہوئے جلد ان کی بازیابی یقینی بنانے کا حکم دیا۔
ان کی بازیابی کے بعد عدالت نے تمام لاپتہ افراد کےکیسز سننے کا فیصلہ کیا اور معاملہ لارجر بینچ کی تشکیل کیلئے چیف جسٹس کو بھجوایا جس کے بعد موجودہ بینچ بنا اور اس نے 30 جولائی سے ان کیسز کی سماعت کا فیصلہ کیا۔
آج کی سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ مجھے ایجنسیز کی عزت بہت عزیز ہے،ایجنسیز کو اپنی عزت کا خود خیال کرنا ہوگا۔ اگر کسی شہری کو ایجنسیز نے جبری گمشدہ نہیں کیا تو پھر ایجنسیز کو وہ بندا سامنے لانا ہوگا جو اصل اغواء کار ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی کا مزید کہنا تھا کہ ایجنسیز کے صرف یہ کہہ دینے سے کہ ہم نے بندا نہیں اُٹھایا ،کیس ختم نہیں ہو جاتا۔ایک موقع پر جسٹس کیانی نے حکومت کیلئے ہی خطرے کی گھنٹی بجا ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کے جو کیسز ہمارے سامنے ہیں ،یہ حکومت کو گھر بھیجنے کے لیے کافی ہی۔
مزید پڑھیں:ملک میں ایمرجنسی کا پلان تیار
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ سب لوگ ریاست سے تنخواہ اور مراعات لے رہے ہیں ،عہدوں کو استعمال کررہے ہیں اور کام کچھ نہیں ہورہا۔عدالت نے سوال کیا کہ وزیراعظم اور اداروں کے سربراہان کی تنخواہیں روکنے کا حکم دے دیں؟
صحافی اویس یوسفزئی کے مطابق سٹوڈنٹ، صحافی، ڈاکٹر، آئی ٹی ایکسپرٹ، سافٹ ویئر انجینئر سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لاپتہ ہیں جن کے کیسز کی عدالت میں سماعت جاری ہے۔
سینئر صحافی صدیق جان نے بتایا کہ عدالت میں تمام گمشدہ افراد کے کیسز کی ایک ایک کرکے رپورٹس منگوائی جارہی ہیں، حقائق لکھے جارہے ہیں اور آگے کیسز چلانے کیلئے روڈ میپ بنایا جارہا ہے۔
یاد رہے کہ جسٹس محسن اختر کیانی کے سخت آرڈز کی وجہ سے گزشتہ دنوں سمیع اللہ نامی گمشدہ شہری واپس آگیا تھا۔ اس کیس کے اسلام آباد ہائیکورٹ میں لگنے سے گمشدہ افراد کی امید ایک بار پھر جاگ اٹھی ہے۔