
یہ انگریز دور حکومت کی بات ہے جب برصغیر میں کام کرنے والے ججز یہاں کی گرمی سے تنگ آکر چھٹیاں گزارنے برطانیہ چلے جایا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور آج بھی پاکستان عدالتوں میں گرمیوں کی چھٹیاں ہوتی ہیں۔
اس سے قبل سپریم کورٹ اور دیگر عدالتوں میں 3 ماہ کی چھٹیاں ہوتی تھیں ، تاہم اب زیر التواء مقدمات کی بڑھتی ہوئی تعداد ہونے کی وجہ سے رواں سال صرف دو ماہ کی چھٹیاں ہوں گی۔
15 جولائی سے شروع ہونے والی چھٹیاں 15 ستمبر تک جاری رہیں گی۔ اس دوران ڈیوٹی ججز صرف ہنگامی نوعیت کی کیسز سن سکیں گے۔
یوں تو کوئی بھی مقدمہ غیر اہم نہیں لیکن چیف جسٹس آف پاکستان کے دل کے بہت قریب مقدمہ جس میں مخصوص نشستوں کے کیس کے فیصلے کے خلاف نظرثانی اپیل سننے میں قاضی فائز عیسیٰ بہت جلدی میں دکھائی دیئے۔
اس حوالے سے چیف جسٹس نے چھٹیوں کی بجائے اس کیس کو جلد نمٹانے کی خواہش کا اظہار کیا، تاہم پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت بننے والی کمیٹی میں جسٹس منیب اختر اور جسٹس مںصور علی شاہ نے ان کی رائے سے اختلاف کیا اور اب یہ کیس ستمبر کے آخری ہفتے میں سنا جائے گا۔
عدالتوں میں چھٹیوں کے حوالے سے جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ اقبال کہتی ہیں کہ باقی محکموں کی طرح ججز کو بھی چھٹیاں ملنی چاہیں کیونکہ وہ زیادہ دباؤمیں کام کرتے ہیں۔
مزیدپڑھیں: پی ٹی آئی پابندی، گرفتاریاں شروع ہو گئیں
تاہم ایک سینئر وکیل نے اس حوالے سے اختلاف ظاہر کرتے ہوئے رائے دی کہ جس انگریز دور کا یہ قانون ہے اس وقت صرف ہاتھ والے پنکھے ہوا کرتے تھے، اب تو اے سی سسٹم عدالت کوجون میں دسمبر بنا دیتے ہیں اس لئےاب اس عمل کو بند ہو جانا چاہیے۔
دوسری جانب عدالتوں میں لاکھوں کی تعداد میں زیر التواء مقدمات کے لیکر سائلین کا مؤقف ہے کہ عدالتوں میں ججز کو مرحلہ وار چند ہفتوں کی رخصت دے دی جائے تا کہ عدالتی عمل بھی چلتا رہے۔
انگریز دور سے چلنے والا عدالتوں میں گرمیوں کی چھٹیاں کا یہ قانون کسی طور ختم ہوتا نظر نہیں آرہا کیونکہ اس پر اگر کیس لگایا جائے تو یقیناً بینچ کے سارے ججز پہلے بار کسی نقطے پر متفق ہونگے۔