پاکستانی یونیورسٹیوں میں ہونے والا ریسرچ ورک کارآمد کیوں نہیں

عالیہ زیب ( فرضی نام) پاکستان کی ایک بڑی سائنس اور ٹیکنالوجی کی یوینورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔ اب ان کا آخری تعلیمی سال ہے اور انہیں ریسرچ ورک کرنا ہے۔ انہوں نے ایک ایمرجنگ ٹیکنالوجی کو ریسرچ کیلئے چنا لیکن ادارے کی فیکلٹی میں ایسے مہارت رکھنے والے اساتذہ نہیں ہیں جو انکو اس ریسرچ میں گائیڈ کرسکیں۔
عالیہ کہتی ہیں کہ کام انسان کو خود کرنا ہوتا ہے اور ادارہ یا سپروائزر آپکو اس کام میں بس رہنمائی کرتا ہے اور وسائل مہیا کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس ایمرجنگ ٹیکنالوجی پر کئی فری لانس پراجیکٹس کر چکی ہیں لیکن ادارے میں انکو ایسی سہولت میسر نہیں آئی۔
عبداللہ (فرضی نام) ایک ریسرچر ہیں اور انہیں چند ماہ قبل پاکستان کی ایک بہت بڑی یونیورسٹی کی ایک طالبہ نے اپروچ کیا کہ وہ انہیں اسکی ریسرچ میں مدد کریں۔
عبداللہ نے ان کا کام دیکھا تو سر پکڑ کر بیٹھ گئے کیونکہ اس میں ریسرچ گیپ ہی نہیں تھا جو یہ بتاتا ہے کہ آپ اپنی ریسرچ میں کیا نیا کرنے جارہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس طالبہ کی رہنمائی کی لیکن وہ تب تک اپنا ریسرچ ورک ادارے کو جمع کرانے کی ڈیڈ لائن پر تھی۔
مزید پڑھیں: نئی نسل کو منشیات سے بچانے کیلئے پاکستان کا بڑا اقدام
انہوں نے جیسے تیسے کر کے اس کے کام کو بہتر بنایا جاسکتا تھا بنایا لیکن تب بھی آپ اسے ریسرچ ورک نہیں کہ سکتے۔ لیکن اس طالبہ نے نہ صرف وہ ریسرچ کا کام بھرپور انداز سے یونیورسٹی میں ڈیفنڈ کر لیا بلکہ اسے اچھے گریڈز سے بھی نوازا گیا۔
پاکستان میں یونیورسٹیوں میں ریسرچ ورک کا فقدان پایا جاتا ہے ۔ گنتی کے چند اچھے پراجیکٹس کے علاوہ پاکستان میں ریسرچ صرف ڈگری کے حصول کیلئے کی جاتی ہے۔
ایسے میں کام نکالنے کیلئے طالبعلم روایتی موضوعات پر کام کرتے ہوئے ڈگری لیتے ہیں اور میدان میں آجاتے ہیں۔ ان کے ریسرچ ورک کو ادارے کی لائبریری میں چند سال نمائش میں لگایا جاتا ہے اور یہ موقع بھی چند ایک نوجوانوں کو ملتا ہے۔
نمائش میں لگے ان ریسرچ ورک کو دیکھ کر کچھ سیکھنے کی بجائے عبرت حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہی نہیں ریسرچ پر اچھی گرفت رکھنے والے ریسرچرز بھی کوئی قابل قدر کارنامہ انجام نہیں دے پاتے کیونکہ ان کا سارا فوکس ریسرچ پبلیکشنز پر ہوتا ہے جس میں معیار اور ریسرچ سے کیا فوائد حاصل ہونے ہیں ، بہت پیچھے رہ جاتا ہے۔