
پنجاب اسمبلی نے ہتک عزت کا بل پاس کر لیا ہے۔ پیپلز پارٹی کو اس بل پر تحفظات بھی تھے۔ اس وقت گورنر پنجاب سلیم حیدر پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور ان سے متعلق ایسی خبریں گردش کرتی رہی ہیں جن میں دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ انہوں نے پارلیمنٹ کو بل دوبارہ نظرثانی کیلئے ارسال کر لیا ہے۔
تاہم اب ان کے بیرون ملک ہونے پر قائمقام گورنر پنجاب ملک احمد خان نے یہ بل منظور کر لیا ہے اور اب یہ باقاعدہ طور پر قانون بن چکا ہے۔ پیپلز پارٹی اگرچہ اس پر تحفظات کا اظہار کر رہی تھی تاہم اس بل کے منظور ہونے پر پی ٹی آئی کی جانب سے آنے والی ابتدائی ردعمل میں پاکستان تحریک انصاف نے اسے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا گٹھ جوڑ قرار دیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما لطیف کھوسہ کا کہنا ہےکہ ہتک عزت قانون پاس کر کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے ڈرامہ کیا ہے۔ پیپلز پارٹی کہتی رہی کہ وہ اس کیخلاف ہے اہنے گورنر کو بھیج ملک احمد خان سے منظور کروا لیا۔
تاہم یہ بل منظور ہوتے ہی لاہور ہائیکورٹ میں چیلنچ بھی کردیا گیاہے۔ایڈوکیٹ ندیم سرور کے ذریعے لاہور ہائیکورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں اس قانون کو خلاف آئین قرار دے کر کالعدم کرنے کی استدعا کر دی گئی ہے ۔
ہتک عزت کا نیا قانون کیا ہے؟
پنجاب اسمبلی نے ہتک عزت کا نیا قانون پاس کیا ہے جس کے تحت ایسے خصوصی ٹریبیونلز قائم کئے جائیں گے جو چھ ماہ کے قلیل عرصے میں ایسے لوگوں کو سزا سنائیں گے جو فیک نیوز پھیلانے کے مرتکب پائے گئے یا ان کے کسی عمل سے کسی شخص کی ہتک عزت کی گئی ہو۔
مزید پڑھیں : حکومت پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات سے پیچھے کیوں ہٹ گئی؟
یہ ٹریبیونل انتہائی بااختیار ہونگے جن کی کارروائی پر کوئی عدالت سٹے آرڈر جاری نہیں کر سکے گی۔ اس میں 30 لاکھ روپے تک کی سزا بھی ہو سکتی ہے جس کیلئے حکم نامہ ٹریبیونل درخواست موصول ہونے کے بعد ہی عبوری حکم نامے میں سنا سکتے ہے۔
بعدازاں اگر جرم ثابت ہو جاتا ہے تو یہ 30 لاکھ روپے تک کی رقم ہرجانے کی رقم میں شامل کر لی جائے گی۔ پنجاب اسمبلی میں اس بل کو حکومت نے اپوزیشن اور صحافیوں سے کسی بھی قسم کی مشاورت نہ کر کے ترتیب دیا ہے اس لئے اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف(سنی اتحاد کونسل) اور صحافتی تنظیموں نے اس قانون کے خلاف احتجاج کا فیصلہ کیاہے۔
اس قانون کے تحت ہروہ شخص کارروائی کی درخواست دے سکتا ہے جسے لگے کہ کسی دوسرے شخص کے کسی عمل سے اس کی عزت پر آنچ آئی ہے۔ کارروائی سے قبل اسے یہ ثابت کرنے کی بھی کوئی ضرورت پیش نہیں آئے گی کہ اس کی شہرت کو کتنا نقصان پہنچا ہے۔
سوشل میڈیا استعمال کرنے والا ہر شخص اس کے زمرے میں آئے گا اس لئے سوشل میڈیا صارفین کو بھی اب قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہوں گے۔