اگر آپ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں تو آپ نے یہ تصویر ضرور دیکھی یا اپنی سٹوری پر لگائی ہو گی جس پر لکھا ہے “آل آئز آن رفح” یعنی کے تمام تمام نظریںرفح پر ہیں۔ یہ تصویر انسٹاگرام سٹوری پر بہت مقبول ہو رہی ہے۔
اس تصویر کے بارے میں حقیقت یہ ہے کہ یہ مصنوعی ذہانت کی مدد سے بنائی گئی ہے اور حقیقت میں رفح سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ تاہم رفح میں پناہ گزین کیمپوں پر اسرائیلی حملے کے بعد سے دنیا بھر میں اس تصویر کو بھاری پیمانے پر شیئر کیا جا رہا ہے۔
خیال رہے کہ رفح کو اسرائیل نے خود ایک محفوظ علاقہ ڈیکلیئر کرتے ہوئے آبادی کو یہاں شفٹ ہونے کا کہا تھا۔ یہاں پناہ گزینوں پر گزشتہ اتوار اس وقت قیامت ٹوٹی جب اسرائیل نے فضائی حملے سے نشانہ بنایا۔
اس کے بعد اسرائیل نے اس حملے کو بڑی کوتاہی تسلیم کیا لیکن اس حملے میں 45 افراد جان سے گئے جن کی بہت دلخراش تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر ہونے لگی۔
تمام نظریںرفح پر کی اس تصویر کو پاکستان کے علاوہ انڈیا میں بھی کافی سیلبرٹیز نے شیئر کیا۔ اس تصویر پر لکھے گئے الفاظ کو انسانی حقوق کی تنظیمیں اپنی سوشل میڈیا کمپین میں بھی استعمال کر رہی ہیں۔
مزید پڑھیں: تباہ شدہ غزہ کی تعمیر نو میںکتنے سال لگیںگے؟
اس تصویر کی مقبولیت پر اے آئی کے ایک ماہر نے بتایا کہ اس تصاویر کو مکمل مصنوعی ذہانت سے بنایا گیا ہے۔ تاہم اس کی مقبولیت کی وجہ یہ ہے کہ کسی دوسری شخص کی انسٹا گرام سٹوری پر دو بار کلک کرنے سے اس کو آپ اپنی سٹوری لگا سکتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ سہولت ہونے کے باعث لوگ اس تصویر کو شیئر کر رہے ہیں اور آل آئز آن رفح کی اس مہم کا حصہ بن رہے ہیں۔ کچھ ماہرین کا یہ بھی خیال ہےکہ اگر رفح کی اصل تصویر ڈال دی جاتی تو اس میں خون اور انسانی لاشوں کی تصاویر انسٹاگرام پالیسی کی وجہ سے مقبول نہ ہو پاتی اور ہٹا دی جاتیں۔
تاہم چند ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی نسل کشی جیسے واقعات میں اے آئی کا سہارا نہیں لینا چاہیے کیونکہ اس میں تصویر مقصد سے لوگوں کی توجہ ہٹا دیتی ہے۔ان کا خیال ہے کہ ایسی تصاویر لے جائیں جو جنگ زدہ علاقے کی ہوں تا کہ دنیا کا ضمیر ملامت کرے۔