اہم خبریں

اب مویشی منڈیوں‌میں‌کیش نہیں‌آن لائن ٹرانسفر چلے گا

مویشی منڈیوں میں جانے سے پہلے شہریوں کیلئے ایک بڑا مسئلہ کیش کا بندوبست کرنا ہوتا ہے۔ عید کے قریب کے دنوں میں اے ٹی ایم چند ٹرانزیکشن کے بعد ہی خالی ہو جاتے کیونکہ شہریوں کو جانور خریدنے کیلئے بھاری رقم چاہیے ہوتی۔
عموماً عید کے دنوں میں بینکوں میں بھی کافی رش ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ شہری وقت سے پہلےکیش کا بندوبست کرتے نظر آتے ہیں۔ رواں سال جانوروں کی آسمان سے باتیں کرتی قیمتوں نے شہریوں کی پریشانی میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔
تاہم اب شہریوں کو کیش کی پریشانی نہیں رہے گی کیونکہ سٹیٹ بینک آف پاکستان ایک ایسی سہولت متعارف کرانے جارہی ہے جس کے تحت مویشی منڈیوں میں بھی اب کیش کی بجائے آن لائن منی ٹرانسفر سہولیات مہیا کی جائیں گی۔ اس سہولت سے بیوپاری اور خریدار دونوں فائدہ اٹھا پائیں گے۔
سٹیٹ بینک نے اس حوالے سے راست سروس متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت شہری موبائل کے ذریعے بیوپاریوں کو جانوروں کی رقم ادا کر دیں گے اور بھاری کیش جیب میں لے کر پھرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
اس حوالے سے سٹیٹ بینک آف پاکستان نے بینکوں کو احکامات جاری کیئے ہیں کہ مویشی منڈیوں میں خصوصی آگاہی کیمپ لگائے جائیں اور شہریوں کو اس سہولت سے متعارف کرایا جائے۔
سٹیٹ بینک کے ترجمان کے مطابق شہری اپنے موبائل ایپ کے ذریعے کیو آر کوڈ سکین کر کے رقم بیوپاری کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دیں گے۔ بیوپاری اپنے موبائل میں ہی کیو آر کوڈ بنا سکتا ہے جبکہ گاہگوں کی آسانی کیلئے وہ پرنٹ کر کے بھی کیو آر کوڈ چسپاں کر سکتے ہیں جسے سکین کرتےہیں چند سیکنڈز میں رقم انکے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہو جائے گی۔
مزید پڑھیں: کیا عیدالاضحیٰ پر ہیٹ ویوز برقرار رہیں گی؟

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں عید الاضحیٰ کے موقع پر جانوروں کی خرید و فروخت میں رقوم کی بھاری ترسیل ہوتی ہے۔ اگر اس نظام کو آن لائن کر دیا جاتا ہے تو یہ ڈیجیٹل اکانومی کے فروغ میں اہم سنگ میل ہو گا۔
تاہم بیوپاریوں نے اس حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ جانور فروخت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ایک کثیر تعداد موبائل بینکنگ سے آشنا نہیں ہے اور اس میں فراڈ بھی بہت زیادہ ہے۔ ایسے میں اگر کوئی شہری دھوکہ دہی سے سکرین شاٹ شیئر کرے اور رقم ترسیل نہ کرے تو بیوپاریوں کی محنت کی کمائی اجڑ جائے گی۔
تاہم شہری اس سروس کو سراہ رہے ہیں اور بھاری کیش اٹھانے کی پریشانی سے چھٹکارا پانے سے خوش بھی دکھائی دے رہے ہیں۔ اب تمام تر نظریں بینکوں پر ہیں کہ وہ اس نظام پر کس قدر بیوپاریوں کو قائل کر پاتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button