نام مائیکل اے تھامسن، عہدہ پرنسپل ایچی سن کالج۔ کوئی عام کالج نہیں، پاکستان کے طول و عرض میں اعلیٰ عہدوں کیلئے بہترین لوگ مہیا کرنے والا ادارہ۔ پرنسپل آسٹریلوی طرز تعلیم کے عادی تھے، سوچا پرنسپل ہوں تو خود مختار ہوں۔ میرے کام میں کوئی دخل اندازی نہیں کرے گا۔
لیکن کسی نے پرنسپل صاحب کو یہ نہ بتایا کہ سر یہ پاکستان ہے، نہیں چلے گا۔ گورنر نے احکامات جاری کیئے کے ہمارے معاشی امور کے وفاقی وزیر اتنا معاش نہیں رکھتے کہ وہ اپنے بچوں کی فیس بھریں۔ وہ اشرافیہ سے ہیں اور ان کے آگے کسی کی نہیں چلے گی۔ لہذا فیس معاف کی جائے۔
آسٹریلوی پرنسپل تھے ، اصول پسند تھے۔ بات ماننےسے انکار کر دیا۔ رکیئے جناب ! آپ بھول رہے ہیں کہ گورنر کے بھی صوابدیدی اختیارات ہیں، انکا استعمال بھی ہو سکتا ہے۔ ان اختیارات کا استعمال بھی ہوا، اور فیس معاف کر دی گئی۔
ایچی سن کالج کے پرنسپل نے عہدے پر اصول کو فوقیت دی اورعہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ بھلا ہو سوشل میڈیا کا کہ پاکستان میں بھی دو چار افراد آواز اٹھانے والے مل جاتےہیں۔ سوشل میڈیا پر آواز اٹھی تو پرنسپل کے حق میں آوازیں اٹھنا شروع ہو گئیں۔
مزید پڑھیں: ننھے شیراز نے ایک ملین سبسکرائبر کی خوشی کس شخصیت کے ساتھ منائی
لیکن تھوڑی ہی دیر میں جب وضاحتوں کا سلسلہ شروع ہوا تو قومی میڈیا پہ گورنر، احد چیمہ اور وفاقی وزراء اس بھونڈے ایکشن کا بھر پور دفاع کرتے بھی نظر آئے۔ پرنسپل تھامسن کی کردار کشی بھی شروع ہو گئی۔
وزیر موصوف نے انکشاف کرڈالا کے پرنسپل صاحب تو انہیں خود اپروچ کرتے ہوئے مختلف مواقعوں پر سہولت دینے کی آفر کی۔ وفاقی وزیر نے پرنسپل کے استعفیٰ کو معاملے کو غیر ضروری اچھالنا قرار دے ڈالا۔
کوئی ایچی سن کالج کے اسٹریلوی پرنسپل کو بتائے کہ سر شکر کریں ابھی صرف آپکو استعفیٰ دینا پڑا ورنہ حماد اظہر صاحب نے مذاق میں جو بات کہی ہے وہ آپکے ساتھ اصل میں بھی ہو سکتی ہے۔
حماد اظہر صاحب ایکس اکاؤنٹ پر لکھتے ہیں: اطلاعات کے مطابق ایچسن کالج کے پرنسپل مسٹر تھامپسن کو ۹ مئی کے واقعے کی FIR میں نامزد کرنے کا اصولی فیصلہ کیا گیا ہے۔ اے ایس آئی بِلو چھلڑ کے مطابق سید بابر علی اور تھامسن نے پٹرول بمب بنا کر ایک ہی لمحے میں لاہور کے سات مقامات پر حملہ کیا۔