ملک میں ہونے والے حالیہ الیکشن پاکستانی تاریخ کے متنازع الیکشن میں شمار ہوتے ہیں جہاں وقت سے پہلے عوام کو نتائج کا علم ہے۔ ایسے میں عوام ووٹ دینے سے بدگمان ہو رہی ہے اور یہ سوچ بہت حد تک معاشرے میں نیچے تک جا چکی ہے کہ جب الیکشن کا رزلٹ پہلے ہی بن چکا ہے تو میرے ووٹ دینے سے کیا ہوگا؟
صحافت کسی بھی معاشرے میں رائے سازی کا کام کرتی ہے۔ ایسے حالات میں کہ جب عوام الیکشن سے بدگمان ہیں، پاکستانی صحافت کا فرض تھا کہ ایسی صورتحال میں عوام کی رائے سازی کرتی، اور اس تاثر کو زائل کر دیتی کہ ووٹ دینے سے فرق نہیں پڑتا۔
تاہم پاکستانی میڈیا اس سوچ کے فروغ میں حد درجے کا سہولت کار ثابت ہوا ہے۔ جہاں ملک میں ایک پارٹی کو دیوار سے لگایا گیا ہے وہیں دوسری پارٹی کو جتوانے کیلئے ہر طرز کی سہولت کاری کی جا رہی ہے اور میڈیا اس میں پیش پیش نظر آتا ہے۔
ملک کے نامور صحافی آئے روز کالم لکھ رہے ہیں جس میں یہ کہا جاتا ہے کہ اگرچہ پاکستان تحریک انصاف عوام میں مقبول پارٹی ہو لیکن اسٹیبلشمنٹ کو یہ منظور نہیں اس لیئے ان کی حکومت نہیں بن پائے گی۔ الغرض ن لیگ کا ساڈی گل ہو گئی اے کا بیانیہ میڈیا پوری طرح سے پروموٹ کر رہا ہے۔
مزید پڑھیں: سوشل میڈیا کمپین میں پی ٹی آئی کو ٹکر دینے والی سیاسی جماعت؟
الیکشن سے دو دن قبل 6 فروری کو پاکستانی اخبارت کا پہلا صفحہ دیکھ کر ایسے معلوم ہوتا ہے کہ 9 فروری کا اخبار 6 فرووری کو سامنے آگیا ہو۔ ملک کے بڑے اردو اور انگریزی اخبارت میں کچھ ایسی ہیڈلائنز لکھی ہیں : نواز شریف وزیر اعظم، عوام نے فیصلہ سنا دیا۔
9 فروری کا اخبار آج ہی شائع pic.twitter.com/ooDen8VDAK
— Nausheen Yusuf (@nausheenyusuf) February 6, 2024
لوگ سوشل میڈیا پر اخبار کی تصاویر شیئر کر کے لکھ رہے ہیں کہ 9 فروری کا اخبار 6 فروری کو آگیا ہے۔ میڈیا رائے سازی کا کام کرتا ہے۔ اگر ایسی خبروں سے عوام کی یہ رائے سازی ہو رہی ہے تو میڈیا کو اپنے کردار پر سوچنا ہوگا۔
2 تبصرے “9 فروری کا اخبار 6 فروری کو کیسے آگیا؟”