انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے شہر سرینگر کے شمالی قصبہ سوپور کے مال ماپن پورہ گاؤں میں ایک معمولی انڈہ ایک حیرت انگیز واقعے کا سبب بنا جس میں اس انڈے کی قیمت چھ روپےسے سوا دو لاکھ روپے تک پہنچ گئی۔
اس واقعہ کا آغاز مسجد کی تعمیر کے لیے عطیہ جمع کرنے سے ہوا۔ عید کے موقع پر، مسجد کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا کہ گھر گھر جا کر نقد اور دیگر اشیاء و اجناس میں عطیات جمع کرینگے۔ جس میں لوگوں نے عطیے میں انہیں نقدی، برتن، مرغیاں، چاول وغیرہ دیئے۔جب یہ عطیہ جمع کر رہے تھے تو ایک چھوٹے سے گھر سے ایک غریب بیوہ باہر آئیں اور اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے ایک معمولی انڈا عطیہ کردیا جس نے اپنی مجموعی قیمت میں کچھ نہ کچھ مخصوصیت بھر دی۔
مسجد کمیٹی کے رکن نصیر احمد بتاتے ہیں کہ باقی سامان کو تو بیچا جاسکتا تھا لیکن میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ اس انڈے کا کیا کریں؟ تاہم میں نے کمیٹی کے دوسرے اراکین کے ساتھ مل کر انہیں مشورہ دیا کہ ہم اس انڈے کی بولی لگائیں گے اور تین دن تک فروخت کے بعد انڈا واپس لے لیں گے-
نصیر احمد کہتے ہیں کہ یہ فٰیصلہ میں نے اس لیے لیا کہ وہ چھ روپے کا معمولی انڈا تھا مگر اُس غریب عورت نے جس جذبے کے ساتھ مسجد کی تعمیر کے لیئے پیشں کیا اُس نے اس انڈے کو قیمتی بنا دیا تھا نصیر نے مسجد میں خاتون کی پہچان خفیہ رکھتے ہوئے اعلان کیا کہ اس انڈے کو نیلام کیا جائے گا اور انہوں نے اپنی جیب سے دس روپے کی بولی سے آغاز کیا ۔پہلی بولی دس ہزار روپے کی تھی، جس کی بدولت انڈے کی قیمت میں اضافہ ہوتا رہا۔
گاؤں کے سابق سرپنچ طارق احمد کا کہنا تھا کہ جامع مسجد کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا، لیکن کمیٹی کو فنڈ کی کمی کا سامنا ہوا۔مگر اس بات کا علم نہیں تھا کہ صرف چھ روپے کے انڈے کی وجہ سے ہمیں سوا دو لاکھ روپے کا فنڈ جمع ہوگا۔مسجد کے انتظامیہ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ انڈے کی بولی صرف تین دن تک ہو گی، اور دو دن تک لوگ انڈے پر مختلف رقموں کی بولی لگا چکے تھے، لیکن ہر بار انڈا واپس کر دیا جاتا۔
مزید پڑھیں: عید کے روز قتل ہونے والے تراب زیدی کے خاندان کو 1.5 کروڑ امداد کس نے دی؟
پھر اعلان ہوا کہ آخری دن بولی بند ہو جائے گی، اور آخری بولی لگانے والے کو انڈا دیا جائے گا۔ دانش حمید، جو سوپور کے نوجوان تاجر ہیں، اس بولی کے دوران شامل تھے جب 54 ہزار روپے کی بولی لگائی گئی، تو دانش نے اپنی آواز بلند کی اور کہا، 70 ہزار۔اس طرح کل انڈے کی قیمت دو لاکھ، چھبیس ہزار، تین سو پچاس روپے تک پہنچ گئی، جو نقد عطیات میں جمع کی گئی۔
دانش نے سب کو بتایا کہ انڈا کس کا تھا یہ تو ان کو بھی معلوم نہیں، مگر سب کو یہ یقین تھا کہ ایک غریب بیوہ نے اسے دے کر اپنے دل کی بات کہی ہے۔ انہوں نے آسودہ لوگوں کو چندہ دینے کے لیے راضی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جب میں نے ستّر ہزار میں انڈا خریدا، تو اُن کی سوچ بھی یہی تھی۔
مسجد کمیٹی کے رکن، نصیر احمد، نے انڈے کو احترامی فریم میں رکھ کر محفوظ کرنے کا انتظام کیا ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ یہ انڈا ان کے خاندان کے لیے ایک یادگار بن کر رہے، جو ایک غریب بیوہ کی نیک نیتی کو ہمیشہ یاد دلاتا رہے۔
یہ واقعہ ایک مثال ہے جو ہمیں ہمیشہ دوسروں کی مدد کرنے اور ان کی محنت کی قدر کرنا سکھاتا ہے۔اور اس بات کو ثابت کرتاہے کہ کوئی بھی چیز معمولی نہیں ہوتی بلکہ ہمارا جذبہ اور سچی نیت اس کو قیمتی بناتے ہیں
“چھ روپے کا انڈا سوا دو لاکھ میں نیلام” ایک تبصرہ