اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے خط کے بعد آج چیف جسٹس اور وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کی ملاقات ہوئی جس کے بعد حکومت نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی خفیہ اداروں کی عدالتی معاملات میں مداخلت اور دوستوں اور اہل خانہ کے ذریعہ بلیک میل کر کے فیصلوں پر اثرانداز ہونے کے معاملے پر انکوائری کمیشن تشکیل دینے کا اعلان کر دیا ہے۔
وزیر اعظم کی چیف جسٹس سے ملاقات کے بعد وفاقی وزیر قانون اعظم نذیرتارڑ نے اٹارنی جنرل کے ہمراہ پریس کافرنس میں کہا کہ الزامات کی تحقیقات کیلئے کسی نیک نام ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دیاجائے گا جس کے ٹی او آرز مشاورت سے تشکیل دیئے جائیں گے۔
یہ عمومی رائے ہے کہ پاکستان میں کسی معاملے کو دبانا ہو تو اس کیلئے انکوائری کمیشن تشکیل دے دیا جاتا ہے۔ سیاستدانوں قانونی ماہرین اور صحافیوں کی رائے ہے کہ ایسا کمیشن بناکر 6 ججز کے خط کو ردی کی ٹوکری کی نظر کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں:ایجنسیوں کی عدالتی معاملات میں مداخلت پر بڑا ایکشن
تحریک انصاف نے ریٹائرڈ جج کی صدارت میں کمیشن کے قیام کو یکسر مسترد کر دیا ہے ۔ اس حوالے سے پی ٹی آئی رہنما شعیب شاہین کا کہنا ہے کہ اس معاملے پر سپریم کورٹ کو فل کورٹ تشکیل دینا چاہیے تھا اور معاملے کو خود سننا چاہیے تھا۔ اس حوالے سے مشاورت کے بعد لائحہ عمل دیں گے۔
ماہر قانون سینیٹر کامران مرتضیٰ نے بھی ں کمیشن کے قیام سے اتفاق نہ کرتے ہوئے بیان دیا کہ آج تک اس ملک میں کسی کمیشن نے کوئی کمال کا کام کیا ہے جواب کرے گا؟ انہوں نے انکوائری کمیشن کے قیام کو تحقیقات کا نامناسب فورم قرار دیتا ہوئے رائے دی کہ یہ تو بال کلیم اللہ سے سلیم اللہ کی طرف بھیجی گئی ہے، حالانکہ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔
6 ججز کے خط پر کمیشن بننے پر رائے دیتے ہوئے صحافی کرامت مغل کاکہنا تھا کہ : حکومت کے انکوائری کمیشن کے اعلان کے بعد پہلی بات واضح ہو چکی ہے کہ عدلیہ کے سربراہ نے انتظامیہ کے سربراہ جس پر معزز ججز نے الزام لگایا ۔۔ اپنے اختیارات سرنڈر کر دیے ہیں ۔ دوسرا پہلو اگر ہائی کورٹ ججز کی تحقیقات ایک ریٹائرڈ جج جس کے پاس کوئی جوڈیشل پاورز نہیں ہوتیں ۔ عزت کا تقاضا تو یہی ہےکہ چھے کے چھے ججز اب استعفی دے دیں
“6 ججز کے خط کو ردی کی ٹوکری کی نظر کرنےکا فیصلہ” ایک تبصرہ