دنیاصحت

4 سالہ جڑواں بچیوں نے خون کے خلیے عطیہ کر کے ورلڈ ریکارڈ بنا دیا

عموماً بچے اس دوران سوئی چبھنے کے ڈر سے روتے ہیں اور بھاگتے ہیں۔ تاہم دونوں کم سن بچیوں نے اپنی آستینیں خود چڑھائیں اور اس ساری تکلیف دہ عمل کو صبر سے برداشت کیا۔

ماں وہ ہستی ہے جو بچوں کیلئے کسی بھی طرح کی قربانی دینے سےس دریغ نہیں کرتی۔

خدانخواستہ بچے کسی جان لیوا بیماری کا شکار ہو جائیں تو ماں ان کیلئے اپنے جسم کے اعضاء تک عطیہ کرنے کو تیار ہو جاتی ہے۔

اس رشتے کی خوبصورتی یہ ہے کہ بچوں کو بھی جب اپنی ماں کیلئے خدمت کرنے کا موقع ملتا ہے تو وہ اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔

آپ نے نوجوانوں کو اپنے والدین کی صحت اور زندگی کیلئے خون، جسم کے اعضاء وغیرہ عطیہ کرتے دیکھا ہوگا۔ لیکن چائنہ میں ایک ایسا واقعہ دیکھنے کو ملا ہے جہاں ساڑھے چار سالہ کی بچیوں نے اپنی ماں کی جان بچانے کیلئے خون بنانے والے خلیے عطیہ کئے۔

چھوٹی بچیوں نے اس دوران تکلیف دہ عمل کو صبر سے برداشت کیا جس نے دنیا بھر کی توجہ ان بچیوں کی طرف مبذول کرا لی۔

 

کوئی بڑی عمر کا عطیہ دہندہ کیوں نہ مل سکا؟

 

زندگی اور موت کی کشمکش کا یہ سفر اس وقت شروع ہوا جب 38 سالہ ماں جن کا نام "لی” بتایا جاتا ہے میں خون کے کینسر یعنی کہ شدید مائیلائیڈ لیوکیمیا کی تشخیص ہوئی۔

ان کی زندگی بچانے کیلئے کوئی ایسا شخص چاہیے تھا جو انہیں خون بنانے والے اسٹیم سیلز عطیہ کرے۔

تاہم قومی بون میرو رجسٹری جہاں ایسے افراد کا ڈیٹا میسر ہوتا ہے ، وہاں سے انہیں کوئی ڈونر نہ مل سکا۔

متاثرہ مریض کی جان بچانے کیلئے ان کے والدین بھی تیار تھے لیکن مشکل یہ تھی کہ والدین 70 سال سے زائد عمر کے تھے اور اتنے عمر رسیدہ افراد یہ سیلز عطیہ کرنے کے قابل ہی نہیں رہتے۔

یوں آخری امید کےطور پر متاثرہ خاتون لی کی دو جڑواں بیٹیاں ہی باقی بچیں جن کی عمر ساڑھے چار سال تھی اور یہی خون کے خلیے عطیہ کرنے کی آخری امید تھیں۔

 

خون کے خلیے عطیہ کرنے والی ننھی ڈونرز کی صبر کی کہانی:

 

یہ معجزاتی میڈیکل پروسیجر چین کے صوبہ ہونان کی سینڑل ساؤتھ یونیورسٹی کے تھرڈ ژیانیہ ہاسپٹل میں  26 مارچ کو طے پایا۔

اس پیچیدہ عمل میں حصہ لینے والی دو کم عمر بچیوں کے عزم اور حوصلے نے نہ صرف وہاں موجود طبی عملے بلکہ دنیا میں جہاں جہاں تک یہ خبر پہنچی، سب کو حیران کر دیا۔

یہ پروسیجر آسان نہ تھا کیونکہ عموماً اگر عطیہ دہندہ کوئی بچہ ہو تو اس کا وزن مریض کے وزن کا تقریباً ایک تہائی ہونا ضروری ہے۔

یہاں بچوں کا وزن کم تھا لیکن ماہر ڈاکٹرز نے جڑواں بچیوں سے بیک وقت خون بنانے والے خلیے حاصل کر کے اس مشکل کا حل نکال لیا۔

 

مزید پڑھیں: تھیلیسیمیا میں مبتلا پاکستانی بچی جدید طریقہ علاج سے مکمل صحت یاب

 

ان کم سن بچیوں نے تقریباً پانچ دن تک انجکشنز اور تقریباً چار گھنٹے تک ان خلیوں کے جمع کرنے کے عمل کو برداشت کیا۔

پانچ دن جاری رہنے والے اس پروسیجر کے دوران روزانہ دو بار بچیوں کو جلد کے نیچے موجود سٹیم سیلز کو متحرک کرنے کیلئے انجکشن بھی لگائے جاتے تھے۔

اسی طرح دن بھر بچیوں سے خون کے ٹیسٹ کیلئے بارہا نمونے بھی حاصل کئے جاتے رہے۔

عموماً بچے اس دوران سوئی چبھنے کے ڈر سے روتے ہیں اور بھاگتے ہیں۔ تاہم دونوں کم سن بچیوں نے اپنی آستینیں خود چڑھائیں اور اس ساری تکلیف دہ عمل کو صبر سے برداشت کیا۔

آخری روز چار گھنٹے کے تکلیف دہ عمل کے بعد مطلوبہ مقدار میں سٹیم سیلز جعع کر کے متاثرہ لی تک منتقل کر دیئے گئے اور ان کی طبعیت میں بہتری دیکھی گئی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سیلز چند ہفتوں میں دوبارہ بن جاتےہیں اور ان کو عطیہ کرنے سے بچوں کی نشوونما پر کوئی برا اثر نہیں پڑتا۔

اس پانچ دن کے جاری رہنے والے عمل نے ایک بار پھر ماں اور بچوں کے درمیان پائی جانے والی محبت کی لکھی جانے والی کہانیوں میں ایک اور کہانی کا اضافہ کر دیا ہے۔

 

 

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button