24 نومبر کا اجلاس معطل ہونے اور مؤخر ہونے کی خبروں کی نفی کرتے ہوئے عمران خان کے آفیشل ایکس چینل سے ایک ٹویٹ جاری کیا گیا جس میںعمران خان کا کہنا تھا کہ ہمارے تین مطالبات ہیں ؛ 26ویں آئینی ترمیم کا خاتمہ اور آئین کی بحالی، مینڈیٹ کی واپسی تمام بےگناہ سیاسی قیدیوں کی رہائی-24 نومبر کا احتجاج نہ مؤخر ہو گا نہ معطل ہو گا-
عمران خان نے مزید کہا کہ آج علی امین گنڈا پور اور بیرسٹر گوہر نے احتجاج کی تیاریوں پر بریفنگ دی- میں اپنے پارٹی عہدیداران، ممبران اسمبلی، ٹکٹ ہولڈرز، ورکرز اور سپورٹرز کو یہ ہدایت کرتا ہوں کہ احتجاج کی جامع منصوبہ بندی کریں اور اپنے حلقے اور علاقے کے لوگوں کو اس کے حوالے سے مکمل آگہی دے کر ایک بھرپور لیکن پرامن احتجاج کے لیے تیار کریں۔
ہم ملک کی خاطر ہمیشہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں- جس دن احتجاج کی کال دی تھی اسی دن لیڈرشپ کمیٹی بھی تشکیل دے دی تھی- مذاکرات جب کرنے ہونگے جس سے بھی کرنے ہوں گے، ہینڈلرز جس کسی کو آگے کریں گے ہماری لیڈرشپ کمیٹی ان سے ہمارے تین مطالبات کے مطابق مذاکرات کرے گی- اگر مسائل مذاکرات سے حل ہوتے ہیں تو اسے اچھی بات کیا ہوسکتی ہے!!
ملک میں کئی دہائیوں بعد نظریاتی سیاست واپس آگئی ہے- 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کراکے نظریاتی سیاست کا جنازہ نکالا گیا تھا اور تب سے سیاست میں پیسہ چلنا شروع ہوا، غیر جماعتی بنیادوں پر سیاست ہوئی اور ممبران اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز ملنے شروع ہوئے- 8 فروری کے بعد تحریک انصاف بطورِ نظریاتی جماعت ابھر کر سامنے آئی ہے- لوگوں نے پارٹی ٹکٹ اور نظریے کو ووٹ دیا ہے-
مزید پڑھیں:اڈیالہ اپڈیٹس؛ احتجاج نہیں مذاکرات
عمران خان کا مزید کہنا تھا کہ الیکٹیبلز کی سیاست ختم ہونا خوش آئند بات ہے- تحریک انصاف کے تمام لوگ پارٹی ٹکٹ پر جیتے ہیں کیونکہ یہ نظریے کی لڑائی تھی- میں خود بھی نظریے کی وجہ سے جیل میں ہوں-ڈاکٹر یاسمین راشد ایک بیان دیتیں تو وہ بھی عندلیب عباس کی طرح باہر آ جاتیں، شاہ محمود قریشی ایک بیان دیتے تو وہ بھی باہر آ سکتے تھے، عمر سرفراز چیمہ، اعجاز چوہدری اور میاں محمود الرشید سمیت ہمارے لیڈرز اور کارکنان بھی آسان راستے کا انتخاب کر سکتے تھے لیکن انہوں نے نظریے کا سودا کرنے سے انکار کیا- اب ہماری جماعت انقلابی جماعت بن چکی ہے، انقلاب ہی ملک کو مسائل اور دلدل سے نکال سکتا ہے-
واضح ہدایات دیتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ 24 نومبر کو جو باہر نہ نکلا وہ پارٹی سے باہر ہو جائے گا، پارٹی میں چاہے کوئی کتنا بھی پرانا ہو، باہر نہ نکلا تو اسکی پارٹی میں کوئی جگہ نہیں ہوگی- یہ احتجاج ٹیسٹ ہے پارٹی اور پارٹی لیڈرز کیلئے- مطالبات کی منظوری تک احتجاج اسلام آباد سے واپس نہیں جائے گا-