صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم آر ایس ایف نے پاکستان کو صحافیوں کیلئے خطرناک ترین خطہ قرار دیا ہے اور رواں سال پاکستان کی بین الاقوامی رینکنگ 152 ہو گئی ہے جو کہ 180 ممالک کی فہرست میں گزشتہ سال 150 نمبر پر تھی۔
گزشتہ دو سالوں سے جب سے عمران خان کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا،جسے پی ٹی آئی رجیم چینج کا نام دیتی ہے، صحافیوں کے خلاف جرائم میں اضافہ ہوا ہے۔
ان دو سالوں میں کئی صحافیوں کو قتل، کئی کو جبری گمشدگیوں کا سامنا کرنا پڑا جبکہ جبر کی فضاء میں خود کو کسی بڑے نقصان سے بچانے کیلئے کئی صحافیوں کو خود ساختہ جلا وطنی کا بھی سامنا ہے۔
وکیل جویریہ صدیق نے رواں سال صحافیوں کیلئے آواز بننے کا فیصلہ کیا اور اسلام آباد ہائیکورٹ میں ایڈوکیٹ اظہر صدیق کے توسط سے درخواست دائر کی تو انہیں معلوم پڑا کہ رواں سال 2024 میں 11 صحافی قتل ہو چکے ہیں۔ یہ ایسے حالات میں ہورہا ہے جبکہ پاکستان میں کوئی خانہ جنگی نہیں ہے۔ ایسے حالات میں بین الاقوامی ادارے جیسے کے رپورٹرز ود آؤٹ بارڈز (آر ایس ایف) پاکستان میں صحافیوں پر ہونے والے مظالم پر جو رپورٹنگ کر رہے ہیں اس میں استعمال ہونے والے الفاظ ویسے ہیں جیسے کہ کبھی غزہ کیلئے استعمال کئے جاتے تھے جہاں کئی صحافیوں کو جانوں کا نذرانہ پیش کرنا پڑی۔
رواں سال کئی صحافیوں کو جبری گمشدگیوں کا سامنا کرنا پڑا اور کئی بیرون ملک بھی گئے جبکہ گزشتہ چند سالوں میں قتل ہونے والے صحافی اس سال بھی انصاف نہ پا سکے۔
ارشد شریف قتل کیس کی مثال لے لی جائے تو کینیا کی عدالت نے اس کیس کا فیصلہ سنا دیا ہے لیکن پاکستان میں آج تک یہ کیس عدالتی بھول بھلیوں میں گھوم رہا ہے۔
اس سال کا سورج الیکشن کی نوید کی ساتھ طلوع ہوا تو امید تھی کہ شاید نئی حکومت آنے کے بعد کوئی افاقہ ہو لیکن یہ جبر ویسے ہی جاری ہے۔
رواں سال بھی کئی صحافی جبری گمشدگی کا شکار ہوئے یا مقدمات بھگت رہے ہیں۔ 26 نومبر کو پی ٹی آئی احتجاج پر طاقت کے استعمال پر بولنے والے صحافیوں کو بھی مقدمات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ کئی صحافیوں کو حکومت اور ان سے جڑی صحافیوں پر تنقید کی پاداش میں بھی سختیاں برداشت کرنا پڑی۔
مزید پڑھیں:پی ٹی آئی کارکنان کی میتوں کی کھوج مطیع اللہ جان کا جرم بن گئی
صحافی اسد علی طور، مطیع اللہ جان، اوریا مقبول ، شاکر محمود اعوان سمیت کئی بڑے نام اس سال بھی روندے جاتے رہے۔
اس تمام تر ظلم کے باوجود سب سے افسوسناک کام صحافیوں کی آپسی تقسیم ہے جس میں حکومت وقت کا ساتھ دینے والے صحافیوں کو اس سال بھی پی ٹی وی جیسے اداروں سمیت کئی نوکریوں سے نوازا جاتا رہا ہے اور ان کے نزدیک اپنی ہی برادری کے لوگوں پر ظلم کوئی بڑی بات نہیں۔
اس سے بڑھ کر یہ کے حکومت سائے میں پنپنے والے ان صحافیوں کو پاکستان رواں سال بھی صحافت کیلئے محفوظ نظر آیا۔ حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو حکومتی سائے میں پنپنے والے یہ صحافی اب صحافی ہی ماننے کو تیار نہیں۔ لیکن اگر بین الاقوامی رپورٹس اور رائے عامہ جان لی جائے تو اس بات کی تصدیق ہو جائے گی کہ واقعتاً یہ سال صحافت کیلئے خطرناک ترین سال تھا۔