گزشتہ روز عمران خان کو اڈیالہ جیل میں القادر ٹرسٹ کیس/ 190 ملین پاؤنڈز کیس میں سزا سنائی گئی۔ اس سزا سنائے جانے کے موقع پر عمران خان کے وکلاء اور بہنیں بھی موجود تھیں جبکہ صحافیوں کو بھی کمرہ عدالت تک رسائی تھی۔
تاہم فیصلے سے قبل اچانک اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے قریب سمجھے جانے والے تین صحافی حسن ایوب، عمران شفقت اور رضوان رضی نمودار ہوئے اور فیصلہ سننے پہنچ گئے۔ یہ اس بات کی نشاندہی کر رہا تھا کہ آج کچھ انوکھا ہونے جارہا ہے کیونکہ یہ افراد پہلے کبھی جیل ٹرائل کے دوران یہاں نہ آئے۔
انکی اس موقع پر آمد کے ساتھ یہ خبریں بھی میڈیا پر زیر گردش رہیں کہ پی ٹی آئی سے سلمان اکرم راجہ ، خالد یوسف چوہدری اور بشریٰ بی بی کے بیٹی کو اڈیالہ جیل میں کمرہ عدالت تک رسائی نہ دی گئی۔
فیصلہ سنائے جانے کے بعد عمران خان نے میڈیا سے گفتگو کرنا تھی تاہم انہیں اوپر بیان کئے گئے صحافیوں کی وجہ سے بات کرنے کا موقع نہ مل سکا۔
اس بات کا انکشاف عمران خان کی بہن علیمہ خان نے جیل کے باہر فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتو میں کیا جہاں ان کا کہنا تھا کہ آج صحافیوں نے جیل میں تماشہ کیا اور شور مچایا جس کی وجہ سے عمران خان میڈیا سے بات نہ کر سکے۔
رضی کا عمران خان سے سوال:
ایسے میں عمران خان سے ایک سوال رضوان رضی کی جانب سے کیا گیا جس میں رضوان رضی نے عمران خان سے کہا کہ آپ لا الہ الا اللہ پڑھتے ہو آگے نہیں پڑھتے۔
جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ آپ کیا باتیں کر رہے ہو، ایمان مُکمل ہی محمد الرسول اللہ ﷺ سے ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں:جو بھی عمران خان سے ملاقات کر کے آرہا ہے کیا بتا رہا ہے؟
پی ٹی آئی رضوان رضی کے سوا ل کو ہلکا نہ لے:
رہنما پی ٹی آئی عامر مغل نے تاریخی حوالہ دیتے ہوئے پارٹی سے گزارش کی کہ وہ رضوان رضی کی جانب سے عمران خان سے کئے گئے اس سوال کو ہلکا نہ لے کیونکہ اسی قسم کا ایک پلانٹڈ سوال جماعت اہلحدیث لاہور کےایک مشہور عالم دین ( نام بھول گیاہے) سے بھی کیاگیاتھا اور اس کےبعد اس کے جواب پر پراپیگنڈہ کیاگیاکہ یہ عالم دین صرف لاالٰہ اللہ الااللہ پر یقین رکھتے ہیں اور محمد رسول اللہ کے منکر( نعوذ باللہ) ہیں پھر ان عالم دین پر قتل کے فتوے لگے اور ان کو ایک مخالف فرقہ کے مذہبی انتہاپسند نے فائرنگ کرکے قتل بھی کردیاتھا۔
عامر مغل کا مزید کہنا تھا کہ آپ مولانا ہشام الہٰی ظہیر سے اس معاملے کی تصدیق کر سکتے ہیں۔
رہنما پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ رضوان رضی جیسے لوگ صحافت کےنام پر شریف فیملی کے مذموم مقاصد پورے کررہے ہیں۔ انہوں نے پارٹی کے وکلاء سے گزارش کی کہ عمران خان کے نوٹس میں یہ معاملہ ضرور لایا جائے اور پولیٹکل کمیٹی کو بھی اس پر ضرور بات کرنی چاہیے کیونکہ یہ سوال بلاسفیمی کے سیکنڈل میں پھنسانے کی کوشش تھا۔