فرض کریں کہ آپ کے زیر استعمال کوئی کمرہ ہو جو کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر کچھ عرصہ بند رہا ۔ اب آپ نے اسے کھولا اور بلب جلایا تو معلوم پڑا کہ دیکھ بھال نہ ہونے سے توکمرے کا حلیہ ہی بگڑ چکا ہے۔
چیزیں بکھری پڑی ہیں، جہاں کتاب کو ہونا چاہیے وہاں جوتا پڑا ہے۔ جہاں جوتے کو ہونا چاہیے وہاں کپڑے پڑے ہیں اور جہاں کپڑوں کو ہونا چاہیے تھا وہاں ان فضول کاغذات کا ڈھیر لگا ہے جنہیں کبھی غصے میں رول کر کے پھینکا تھا لیکن بعد میں اٹھایا نہ جا سکا۔
علم کی روشنی میں اصلاح کا سفر بھی کچھ اسی مانند ہے۔ جب آپ علم کی روشنی سے منورہوتے ہیں تو آپ کو معلوم پڑتا ہے کہ آپ کی مثال بھی اس کمرے کی طرح ہوئی ہے جس کی کئی ماہ دیکھ بھال نہیں کی گئی۔
آپ غور کرتے ہیں تو معلوم پڑتا ہے کہ یہاں تو ہر چیز کی ترتیب الٹی ہوئی پڑی ہے۔ جہاں اللہ رب العزت کو ہونا چاہیے تھا وہاں ہم نے مخلوق کو جگہ دے رکھی ہے۔ جہاں والدین کو ہونا چاہیے تھا وہاں ہمارے دوست احباب ہیں اور جہاں دوست احباب کو ہونا چاہیے تھا وہاں زندگی کی غیر ضروری مصروفیات ہیں۔
اب جبکہ آپکو یہ بگاڑ نظر آتا ہے تو آپ اصلاح کرنے کو دوڑتے ہیں۔ یعنی کہ کمرے کو ترتیب دینےلگتے ہیں۔ ہر چیز کو اس کی جگہ پر پہنچانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ لیکن اس دوران یہ خیال رکھا جاتا ہے کہ روشنی نہ بھجے۔ کیونکہ روشنی بھج گئی یا آپ نے اپنے آپ کو اس حالت سے الگ کر دیا تو کمرے کی حالت دوبارہ ویسی ہو جائے گی۔
اسی طرح اپنی اصلاح کیلئے بھی ضروری ہے کہ علم کی روشنی جاری رہے۔
اب فرض کریں کہ آپ کے میونسپل سروسز مہیا کرنے والے اداروں سے اچھے روابط ہیں اور آپ کو کسی خصوصی مہمان کی آمد کی خبر ہوئی تو آپ نے ان سے کہہ کر اپنی گلی محلے کو صاف ستھرا کرا دیا لیکن اس کمرے کی صفائی کو بھول گئے جس میں اس مہمان کو ٹھہرنا تھا۔
یوں معلوم ہوتا ہے کہ اپنی اصلاح کی فکر امت کی اصلاح سے قبل ہونی چاہیے۔ اگر آپ کا اپنا کمرہ صاف ستھرا نہیں لیکن آپ نے گلی محلے کو چمکا دیا ہے تو اس خصوصی مہمان سے آپ کو پھر بھی داد نہیں ملنے والی۔
مزید پڑھیں:پاکستان میں اب بزرگوں کیلئے اپنے گھر ہی اولڈ ایج ہوم کیوں بنتے جارہے؟
اب فرض کریں کہ آپ نے کمرے کی روشنی جلائی اور اس کی بگڑی حالت دیکھی تو آپ کے پاس وقت بہت کم تھا۔ بجائے اس کے کہ آپ اس وقت کو درست استعمال میں لاتے اور کمرے کی حالت درست کرتے، آپ نے اپنی مصروفیات کا رونا شروع کر دیا کہ اگر میری یہ مصروفیت نہ ہوتی، وہ مصروفیت نہ ہوتی تو میں اس کمرے کو سنوار کر رکھتا۔
آپ کے اس رونے دھونے پر ہر ذی شعور انسان ہنسے گا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اگر آپ کو علم کی روشنی میں اپنی غلطیاں نظر آنے لگ جائیں تو بقیہ وقت اور طاقت ان غلطیوں کے دفاع میں لگانے کی بجائے اپنی اصلاح میں لگائیں تا کہ ممکنہ نتائج حاصل کئے جاسکیں۔ یوں علم کی روشنی میں اصلاح کا سفر ایک مسلسل کوشش ہے جس کے دوران روشنی گل نہیں ہونی چاہیے اور آپ کی توانائی چیزوں کے سنوارنے میں خرچ ہونی چاہیے۔