پاکستانی

پاکستانیوں کو جس کام سے روکا جائے وہی کام کیوں کرتے ہیں؟

پاکستانیوں کو جس کام سے روکا جائے وہ کام یہ ضرور کرتے ہیں ۔ آپ نے یہ جملہ اکثر ایک محاورے کی طرح سنا ہوگا۔ یہ محاورے سنانے کے بعد اس کے حق میں دیئے جانے والے دلائل اکثر منفی ہی ہوتےہیں۔
آج ہم مثبت طریقے سے یہ ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے کہ پاکستانیوں کو جس کام کے کرنے سے روکا جائے تو وہی کام کیوں کرتے ہیں۔
پاکستان میں پابندیوں کی طرف دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ضروری نہیں کہ جس چیز سے عوام کو روکا جارہا ہو وہ کچھ خطرناک ہو۔ عموماً ایوان اقتدار میں بیٹھے لوگوں کو جب اپنا اوپر کوئی خطرہ بنتا نظر آئے تو وہ اس چیز کو بند کر دیتے ہیں۔ اور پھر پاکستانی اس چیز تک رسائی کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں، پھر آپ اس کو جو چاہیں نام دے لیں۔
آزادی اظہار رائے کی بات کر لی جائے تو پاکستانیوں کو اس سے روکا جانا عمومی سی بات ہے۔ اپنے حق کیلئے آواز اٹھانے کا راستہ یا سڑکوں پر احتجاج ہے یا سوشل میڈیا پر۔
پاکستانیوں کو ان دونوں سے روکا جاتا ہے۔ روڈ پر احتجاج کیلئے آنےوالوں سے وہ رویہ برتا جاتاہے جو کسی دشمن سے برتا جائے۔ سوشل میڈیا پر آزادی اظہار رائے کرنے والوں کیلئے اگر سوشل میڈیا کی زبان میں بات کی جائے تو سافٹ ویئر اپڈیٹ کر دیا جاتا ہے یا سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ہی پابندی لگا دی جاتی ہے۔
اب پاکستانیوں کو اگر آزادی اظہار رائے کے بنیادی حق سے روکا جائے تو اگر وہ وہی کام کریں تواس میں کیا حرج ہے؟

مزید پڑھیں:‌پاکستانی شہری سود میں کیوں پھنستے جارہے؟

اسی طرح عوام کو اپنے نمائندے چننے کا حق نہیں دیا جاتا۔ ہر الیکشن میں دھاندلی کا نیا طریقہ نکالا جاتا ہے۔ سال 2024 میں ہونے والے انتخابات سے قبل عوام میں مقبول جماعت اور اس کے انتخابی نشان کو ہی الیکشن میں اترنے سے روک دیا گیا۔ لیکن پھر بھی پاکستانیوں نے وہی کیا جس سے انہیں روک گیا۔ انہوں نے اسی پارٹی کے نامزد کردہ مولی، گاجر، کریلے ، ٹینڈے کے نشان پر ووٹ ڈالا۔
کون پاکستانی چاہے گا کہ اسکا ملک ترقی نہ کرے اور اس میں اپنا حصہ ڈالنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرے گا۔ نوجوان آئی ٹی سروسز دے کر ملک میں پیسہ لانا چاہتے ہیں لیکن انہیں انٹرنیٹ کی سہولت سے محروم کر کے ایسا کرنے سے روکا جاتا ہے۔ لیکن وہ پاکستانی خون اب کیا کرے، نوجوان پھر ملک سے باہر جا کر زرمبادلہ کما کر ملک میں بھیجتے ہیں۔
یوں یہ محاورہ کہ پاکستانیوں کو جس کام سے روکا جائے وہ وہی کرتے ہیں کے صرف منفی پہلو نہیں۔ اگر اس کے مثبت پہلو نکالے جائیں تو شاہد منفی پہلو پیچھے رہ جائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں