فاسٹ باؤلر محمد عرفان نے بھی انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا ہے۔ یہ گزشتہ دو دنوں میں تیسری بڑی ریٹائرمنٹ ہے۔ اس سے قبل فاسٹ باؤلر محمد عامر اور آل راؤنڈر عماد وسیم نے بھی انٹرنیشنل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تھا۔
محمد عرفان نےاپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا۔ عرفان نے لکھا کہ میں نے بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں اپنے ساتھی کھلاڑیوں، کوچز کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔ آپ کے پیار، حوصلہ افزائی اور ناقابل فراموش یادوں کے لیے شکریہ۔ میں اس کھیل کی حمایت اور خوشی مناتا رہوں گا جس نے مجھے سب کچھ دیا۔ پاکستان زندہ باد۔
محمد عرفان نے صرف 4 ٹیسٹ میچز میں قومی ٹیم کی نمائندگی کی جبکہ 60 ون ڈے اور 22 ٹی ٹونٹی میچز بھی انکے کیرئیر کا حصہ ہیں۔ انہوں نے آخری بار 2019 میں آسٹریلیا کے خلاف ٹی ٹونٹی میچ کھیلا تھا جس کے بعد انہیں موقع نہ ملا۔
یہاں یہ سوال پیداہوتا ہے کہ پاکستان میں ہیروز اتنی جلدی زیرو کیوں ہو جاتے ہیں؟ ہمارے کھلاڑیوں کو ایک دو میچز کی خراب کارکردگی کے بعد سائیڈ لائن کیوں کر دیا جاتا ہے اور انکی تمام تر اچھی پرفارمنسز کو بالائے طاق کیوں رکھ دیا جاتا ہے؟
پی ایس ایل شروع ہونے کے بعد سے پاکستان کو گزشتہ چند سالوں میں کافی نیا ٹیلنٹ ملا ہے۔ لیکن اس سے دوگنا ٹیلنٹ ہم نے ضائع کیا ہے۔
مزید پڑھیں:عماد وسیم کو واپس نہ آنے ، محمد عامر کو فیصلہ واپس لینے کی اپیل
اپنے سٹار کرکٹرز کو ہیرو سے زیرو بنانے کی یہ ہماری سوچ اور منطق سمجھ سے بالکل بالا تر ہے۔ گزشتہ چند میچز میں بابر اعظم جب اچھا پرفارم نہ کر پائےتو انکے تمام تر کیرئیر ریکارڈز بھلا کر ان سے ریٹائرمنٹ کی مانگ کی جانے لگی۔ اسی طرح فخر زمان بھی ان دنوں کچھ ایسی ہی پریشانی کا سامنا کررہےہیں۔ انگلینڈ کے خلاف دو ٹیسٹ میچز میں 19 وکٹیں لینے کے باوجود بھی ساجد خان ہمارے سلیکٹرز کی سوچ پر پورا نہیں اتر رہے اور انہیں اب ساؤتھ افریقہ کے خلاف سیریز میں نہیں سلیکٹ کیا گیا۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ٹیلنٹ کی ناقدری ہمارے کھیل کو ترقی کرنے سے روکتی رہتی ہے۔ اور ہم پل بھر میں ہیرو کو زیرو بنانے دیتے ہیں۔ مضحکہ خیز بات یہ بھی ہے کہ ہیرو کو زیرو بنانے کے اس کھیل میں عوام اور پی سی بی ایک پیج پر دکھائی دیتے ہیں۔