دنیا بھر میں حکومتوں کے عروج و زوال کی چند نشانیاں ہوتی ہیں۔ بظاہر طاقتور دکھائی دینے والی حکومت اچانک اس طرح پلٹا کھاتی ہے کہ انسانی سوچ دنگ رہ جاتی ہے کہ یہ کیسے ممکن ہوا۔
ہمارے سامنے اس وقت تین مثالیں ایسی ہیں جن کے وقوع پذیر ہونے سے قبل گمان بھی نہیں تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے۔ اس میں افغانستان سے اشرف غنی کی حکومت کا خاتمہ اور انکا فرار ہونا، بنگلہ دیش سے حسینہ واجد کی بظاہر مضبوط حکومت کا ٹوٹنا اور حسینہ واجد کا فرار ہونا اور شام میں بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ چند ایسی مثالیں ہی جو بہت قریب کی ہیں۔
پاکستان میں بھی حکومتیں کچھ ایسی پریشانی سے دوچار رہتی ہیں۔ بظاہر دو تہائی اکثریت رکھنے والی حکومت پل بھر میں گرا دی جاتی ہے اور مقبول ترین لیڈر کا لقب رکھنے والا شخص جیل اور مقدمات کی نظر ہوجاتا ہے۔
تاہم حکومتوں کے زوال سے قبل چند اشارے ملتے ہیں جنہیں اگر سمجھ لیا جائے تو عافیت ہوتی ہے۔ وگرنہ پھر وہی حال ہوتا ہے جو شام میں اسد خاندان کے تخت حکمرانی کا ہوا یا جن حالات میں حسینہ واجد کو ملک سے کوچ کرنا پڑا۔
مزید پڑھیں:جب سہیل وڑائچ کی پیشن گوئیاں میاں صاحب کو لے ڈوبیں
حکومتوں کے خاتمے کو طرف ملنے والے چنداشاروں کی ایک ایسی ہی فہرست پتن کے نینشل کوارڈینیٹر سرور باری نے شائع کی ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ حکومتوں کے خاتمے کے چند اہم اشارے یہ ہیں:
1۔ جبر میں مسلسل اضافہ تاکہ سچ عوام تک نہ پہنچ سکے۔
2۔ جھوٹا بیانیہ تشکیل دینا۔
3۔ افسر شاہی کو مراعات سے نوازنا اور نااہل افراد کو اہم عہدوں پر متعین کرنا۔
4۔ جرائم پیشہ افراد کو مخالفین کے خاتمے کے لیے استعمال کرنے میں اضافہ۔
5۔ دولت کی بیرون ملک منتقلی میں تیزی۔
6۔ بیرونی طاقتوں کے ناجائز دباؤ کو قبول کرنے کا رجحان۔
7۔ بیرونی سرمایہ کاری میں کمی۔
8۔ سماجی تقسیم میں شدت آنا۔
9۔ احتجاج اور مظاہروں میں بڑھتا ہوا رجحان۔
10۔ مزاحمتی ادب میں تیزی آنا