بابر-اعظم

کیا بابر کو ریٹائرمنٹ لے لینی چاہیے؟

دنیائے کرکٹ کے باصلاحیت ناموں کی فہرست ترتیب دی جائے تو بابر اعظم اس فہرست میں ضرور پائے جائیں گے۔ 2015 میں اپنے کیرئیر کے آغاز سے اب تک انہوں نے کئی میچز میں شاندار پرفارمنس دے کر ٹیم کی فتح میں اہم کردار ادا کیا۔
ان کی قیادت میں ہی قومی کرکٹ ٹیم نے کئی فتوحات حاصل کیں۔ لیکن گزشتہ سال سے دیکھا گیا کہ بابر اعظم اور قومی ٹیم کی مجموعی کارکردگی کا زوال شروع ہوا جس کے بعد کسی دور میں ہیرو سمجھے جانے والے بابر اعظم اب ہدف تنقید بننا شروع ہو گئے۔
انہوں نے کپتانی کے فرائض سے توبہ بھی کر لی لیکن ان کی کارکردگی میں کوئی نکھار نہ آیا۔ یوں انکو آرام دینے کی غرض سے انگلینڈ کے خلاف آخری دو ٹیسٹ میچز میں نہ کھلایا گیا۔
اس کے بعد انہیں جب آسٹریلیا کے خلاف ون ڈے میں موقع ملا تو وہاں بھی وہ زیادہ متاثر کن کارکردگی نہ دکھا سکے۔ اس کے بعد اب تک دو ٹی ٹونٹی میچز میں بھی وہ کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھا سکے ہیں جس سے ان کے ناقدین نے انہیں مشورہ دینا شروع کردیا ہے کہ اب بابر کو ریٹائرمنٹ لے لینی چاہیے۔

مزید پڑھیں:رکی پونٹنگ کا بابر اعظم کو کھوئی ہوئی فارم واپس لانے کیلئے مشورہ

لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ ون ڈے ، ٹیسٹ اور ٹی ٹونٹی تینوں فارمیٹ میں اچھی کارکردگی دکھانے والے کنگ بابر کو چند میچزمیں کارکردگی نہ دکھا سکنے کی جرم میں کرکٹ سے جبری ریٹائر کرنا درست فیصلہ ہوگا؟
عمر کی بات کر لی جائے تو ابھی بابر صرف 30 برس کے ہیں یعنی 35 سال تک تو کرکٹ کھیل سکتے ہیں۔ رہی بات فٹنس کی تو اس پر انہیں توجہ دینا ہو گی۔
یہاں جذبات سے نکل کر سوچا جائے تو بابر کو ریٹائرمنٹ کا مشورہ دینا فی الوقت حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ ایسے میں صرف بابر کو جو مشورہ دیا جاسکتا ہے وہ رکی پونٹنگ کا مشورہ ہے جنہوں نے چند روز قبل ہی بابر کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ کھوئی ہوئی فارم واپس لینے کیلئے کچھ عرصہ بریک لے لیں۔
بابر کو چاہیے کو وہ کچھ عرصہ بریک لے کر اپنے لوپ ہول تلاش کریں تا کہ انہیں مزید 3 سے 4 سال تک اچھی کرکٹ کھیلنے کا موقع مل سکے۔ وگرنہ پاکستانی کرکٹ کی تاریخ گواہ ہے جب کسی کھلاڑی کو جبری ریٹائرڈ کرنے کی ٹھان لی جاتی ہے تو اس کا بوریا بستر گول کر کے ہی سکون پایا جاتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں