ایک وقت تھا جب ایسے لوگ جو اے ٹی ایم سے پیسے نکلوا کر نوٹ چیک اور پیسے گنا کرتے تھے ان کا مذاق بنایا جاتا تھا۔ لیکن اب یہ بات مذاق کی حد سے بڑھ کر سیریس ہو چکی ہے کیونکہ ملک بھر میں اے ٹی ایم سے جعلی کرنسی ملنے کی شکایات میں اضافہ ہونے لگا ہے۔
بات صرف شکایات تک محدود نہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے کئی نجی بنکوں سے جعلی نوٹ برآمد کر کے عملے کے خلاف کارروائی بھی کر چکے ہیں۔
گزشتہ سال جنوری میں پشاور میں ایف آئی اے نے نجی بنک سے 3۔8 ملین روپے جعلی کرنسی برآمد کی تھی۔ تاہم اے ٹی ایم سے جعلی کرنسی ملنے کی شکایت اب معمول بنتی جارہی ہے جس پر حکام کی خاموشی جرم کو تحفظ دینے کی کوشش نظر آنے لگتی ہے۔
گزشتہ ماہ راولپنڈی کے ایک شہری نے نجی بنک کی اے ٹی ایم سے 30 ہزار روپے کیش نکالا جس میں سے دو پانچ ہزار کے نوٹ جعلی نکلے۔
متاثرہ شہری نے نجی نیوز چینل کو بتایا کہ انہوں نے بنک میں شکایت درج کی تو ابتدائی طور پر ان کے اس الزام کو ماننے سےانکار کیا گیا۔ بعدازاں اے ٹی ایم کی سی سی ٹی وی فوٹیج اور اندرونی سطح کی تحقیقات کے بعد بنک نے انہیں دو نوٹ تبدیل کر کے انہیں دس ہزار کی رقم واپس کر دی۔ لیکن ملک بھرمیں شہریوں کو یہ سہولت میسر نہیں اور بنک میں یہ ثابت کرنا کہ یہ نوٹ اسی اے ٹی ایم کا ہے ، جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
مزید پڑھیں: کچھ لوگ اے ٹی ایم میںزیادہ وقت کیوں لگاتے ہیں
اے ٹی ایم میں جعلی کرنسی کیسے آتی ہے کہ جواب میں ایک بنک ملازم نے میڈیا کو بتایاکہ سٹیٹ بنک سے آنے والی کرنسی میں جعلی نوٹ ہونے کا شبہ نہ ہونےکے برابر ہے۔ تاہم روزانہ کی بنیاد پر مارکیٹ میں آنے والی کرنسی میں جعلی کرنوٹ ہوسکتے ہیں جو کہ انسانی غلطی کے باعث کیش میں شامل ہو کر اے ٹی ایم تک پہنچ سکتے ہیں۔
جعلی کرنسی کا معاملہ ایوان اقتدار تک بھی پہنچ گیا۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں سینیٹر منظور کاکڑ نے بھی اپنے کسی جاننے والے کو اے ٹی ایم سے کیش نکلوانے پر 5 ہزار کے تین جعلی کرنسی نوٹ موصول ہوئے۔ انہوں نے یہ معاملہ سٹیٹ بنک اور نجی بنک کے سامنے رکھتے ہوئے یہی وضاحت طلب کی کہ آخر اے ٹی ایم تک جعلی نوٹ کیسے پہنچ سکتا ہے۔
سٹیٹ بنک اور نجی بنکوں کو اس حوالے سے سخت پالیسی اپنانی چاہیے کیونکہ بعض اوقات کسی غریب کی تنخواہ کا بڑا حصہ جعلی کرنسی کی نظر ہو جاتا ہے جس سے اس کے بجٹ کی بنیادیں ہل جاتی ہیں۔