متفرق

یورپ کے سوکھتے دریا اور ابھرتا ماضی؛ آثارِ قدیمہ کی دریافت سے تاریخ زندہ

قیمتی آثارِ قدیمہ جو صدیوں پانی کے نیچے رہنے کی وجہ سے محفوظ تھے اب منظر عام پر آنے لگے ہیں۔

یورپ جو کبھی سرسبز وادیوں اور بہتے دریاؤں کی وجہ سے جانا جاتا تھا ، آجکل خشک سالی اور اجاڑ کا منظر پیش کر رہا ہے۔

یہ اجاڑ موسمیاتی تبدیلیوں کی شدت کی طرف اشارہ کر رہا ہے جو تشویش ناک حد تک پہنچ چکا ہے۔

لیکن یہ  موسمیاتی تبدیلیاں حیران کن طور پر قیمتی نوادرات اور دیگر آثارِ قدیمہ کی دریافت کا باعث بن رہے ہیں۔

یورپ میں جاری حالیہ خشک سالی کی وجہ سے کئی مقامات پر آثارِ قدیمہ برآمد ہوئے ہیں جو کہ کبھی پانی میں ڈوبے تھے لیکن اب خشک سالی کے باعث منظر عام پر آ گئے ہیں۔

لیکن یہ قیمتی آثارِ قدیمہ جو صدیوں پانی کے نیچے رہنے کی وجہ سے محفوظ تھے اب منظر عام پر آئے تو خشک سالی کی وجہ سے ان کے بقاء پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔

وہ خطرناک موسمی حالات جو ان قیتمی نوادرات کو منظر عام پر لائے، اب وہی ان کیلئے خطرہ بھی بنے ہوئے ہیں۔

 

7000 سال پرانی  دریافت، اسپینش سٹون ہینج

 

سب سے قدیم اور حیران کن دریافتوں میں سے ایک ڈولمین آف گوادلپرل ہے جسے اسپینش سٹون ہینج کہا جاتا ہے۔ یہ میگالیتھک پتھروں کا دائرہ تقریباً 7000 سال پرانا ہے۔

ڈیم کی تعمیر کی وجہ سے یہ 1963 میں ریزروائر کے نیچے ڈوب گیا تھا اور اس کے بعد اب یہ 2019 اور 2022 میں دوبارہ ظہور پذیر ہونا شروع ہوا۔

1920 کی دہائی میں جرمن ماہر آثار قدیمہ ہیوگو اوبرمائر  نے اسے دریافت کیا تھا۔

اس دریافت کا اصل مقصد کیا رہا ہوگا اس بارے کئی پیشن گوئیاں کی جاتی ہیں جیسا کہ تدفین کی جگہ، فلکیاتی رسد گاہ یا قریبی دریائے ٹیگس کا کوئی تجارتی مرکز۔ لیکن حتمی رائے ابھی کوئی سامنے نہیں آئے۔

ایک بار پھر اس آثارِ قدیمہ کے سامنے آنے نے ماہرین آثارِ قدیمہ اور محققین کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ اس کی ساخت اور سیاق و سباق کا مطالعہ کر سکیں۔

 

قریب دور کے آثارِ قدیمہ:

 

جہاں قدیم دور کی باقیات سامنے آئیں، وہیں یورپ میں جاری خشک سالی سے نسبتاً حالیہ تاریخ کی چند باقیات بھی برآمد ہوئی ہیں۔

2022 کے شدید خشک موسم گرما میں اٹلی کے  دریائے ٹائبر پر واقع نیرو کا پل بھی سامنے آیا۔

مؤرخین اور ماہرین آثار قدیمہ کا خیال ہے کہ یہ  رومن پل، بادشاہ نیرو کے دور میں تعمیر کیا گیا تھا  جو کہ تقریباً 2000 سال قدیم کا ہی دور بنتا ہے۔

اگرچہ یہ کوئی نئی دریافت نہیں ہے۔ یہ پہلے بھی سامنے آتی  رہی ہے۔ لیکن اس کے بار بار ابھرنے نے ایک بار پھر اس طرف اشارہ کیا ہے کہ کیسے موسمیاتی تبدیلیاں آثارِ قدیمہ کو متاثر کر رہی ہیں۔

 

مزید پڑھیں: موسمِ بہار سے محروم ہوتا ملکِ پاکستان

ہنگر سٹون کی دریافت میں ہمارے لئے سبق:

 

ان آثارِ قدیمہ کی فہرست سے برآمد ہونے والی ایک پریشان کن دریافتوں میں سے ایک ہنگراسٹونز ( (Hunger Stones  جو جرمنی اور چیک رپبلک میں خشک سالی کی وجہ سے دریائے رائن اور ایلب کے کناروں پر نمودار ہوئے۔

یہ پتھر ماضی میں قحط کا انتباہ جاری کرنےکیلئے استعمال ہوتے تھے۔ پانی کی سطح کم ہونے پر یہ پتھر آئندہ نسل کیلئے قحط اور مشکلات کے ممکنہ خطرے کی طرف اشارہ کرتے تھے۔

دریائے ایلب سے برآمد ہونے والے ایک ایسے ہی ہنگر سٹون پر درج عبارت کا ترجمہ کچھ یوں بنتا ہے ، ” اگر تم مجھے دیکھو، تو رو لو۔”

ان پتھروں کے سامنے آنے نے دور قدیم کے تکلیف دہ ایام کی یادگار کے ساتھ ہمارے لئے بھی خطرے کی گھنٹی بجادی ہے  اور ہمیں سخت انتباہ جاری کر رہے ہیں کہ ہماری اگلی نسلیں بھی قحط کا شکار ہوسکتی ہیں۔ اس لئے ہمیں موسمیاتی تبدیلیوں سے نبردآزما ہونا پڑے گا۔

 

جنگی باقیات جن کے خطرات اب بھی باقی ہیں:

 

موسمیاتی تبدیلیوں کے ساتھ ماضی کی ایک اور تلخ یاد یعنی کہ جنگوں کے نشانات بھی اس خشک سالی کے دوران نمودار ہوئے۔ موسم گرما 2022 میں دریائے ڈینیوب میں سربیا کے مقام پر نازی جرمن فوج کے ایک درجن سے زائد جنگی بحری جہاز نمودار ہوئے۔

حیرت انگیز اور تشویشناک طور پر ان جہازوں میں اب بھی دھماکہ خیز مواد کے آثار دکھائی دیئے جو کہ سمندری حیات اور آبی گزرگاہوں کیلئے شدید خطرات کا باعث ہیں۔

اسی طرح کا ایک خطرہ 2022 میں اس وقت سامنے آیا جب اٹلی کے دریائے پو میں پانی کی سطح کم ہونے پر ماہی گیروں کو 450 کلو گرام کا وزنی غیر پھٹا بم دریافت ہوا۔

اس بم کی دریافت کے بعد متاثرہ علاقے سے لوگوں کا انخلا کرایا گیا اور آبی اور فضائی آمدورفت بند کر کے محفوظ طریقے سے ناکارہ بنایا گیا۔

 

آثارِ قدیمہ کی دریافت ؛ عبرت یا کلچر ؟

 

انور مسعود صاحب ایک شعری بند کہتے ہیں:

اجڑا سا وہ نگر کہ ہڑپہ ہے جس کا نام

اس قریۂ شکستہ و شہر خراب سے

عبرت کی اک چھٹانک بر آمد نہ ہو سکی

کلچر نکل پڑا ہے منوں کے حساب سے

 

چاہے برآمد ہونے والے آثار قدیمہ ہمیں کسی دور کی ثقافت کا پتا دیتے ہوں یا ماضی کے کسی اور گہرے راز سے پردہ اٹھا دیں، یہ راز جس امر کی وجہ سے افشاء ہو رہے ہیں ، ہمیں اس پر نظر رکھنا ہوگی۔

یعنی کہ جو موسمیاتی تبدیلیاں ان آثار قدیمہ کے سامنے آنے کی وجہ بن رہی ہیں، ان سے عبرت حاصل کرنی چاہیے ناں کہ اسے کلچر کے طور پر اپناتے ہوئے اس کے ساتھ سیلفیاں بناتے رہنا چاہیے۔

 

 

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button