ہمیں ڈراؤنے خواب کیوں آتے ہیں؟

ڈراؤنے خواب کیوں آتے ہیں؟
ان کی کیا وجہ ہے؟
کیا یہ کسی پریشانی کی وجہ سے آتے ہیں یا یہ شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں؟

جواب
یہ بات ذہن نشین کرلی جائے کا مطلقًا خواب کا انکار کر دینا کہ سرے سے خواب کا کوئی وجود ہی نہیں یا یہ گمان کرنا کہ خواب محض جھوٹ اور من گھڑت باتیں ہیں، ایسا رویہ جہالت ہے، کیونکہ خواب کے وجود کا مطقاً انکار “کفر” ہے۔ اس لئے کہ خواب کا وجود قرآن کریم اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے۔

مزید پڑھیے: مرد جو جنت میں حوریں ملیں گی لیکن جنتی عورت کو کیا ملے گا؟

قرآن پاک نے انبیاء کے خوابوں کا تذکرہ کیا ہے اور یہ بھی بتلایا ہے کہ انبیاء پر وحی نازل ہونے کا ایک ذریعہ “خواب” بھی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” نیک خواب اللہ رب العزت کی طرف سے ہوتے ہیں۔”

(بخاري، الصحيح، کتاب بدء الخلق، باب صفة ابليس و جنوده، 2 : 1198، رقم : 3118)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “وہ خواب جو سحری کے وقت رات کے پچھلے پہر آتے ہیں وہ دیگر خوابوں کے مقابلے میں زیادہ سچے ہوتے ہیں۔”

(ترمذي، السنن، کتاب الرويا عن رسول الله، باب قوله لهم البشري في الحياة الدنيا، 4 : 534، رقم : 2274)

صحیح مسلم میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: “جو کوئی اچھا، نیک خواب دیکھے تو اس پر خوش ہو۔”

(مسلم، الصحيح، کتاب الرويا، : 1772، رقم : 2261)

سنن ابن ماجہ میں ہے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: “تم میں سے کوئی اگر اچھا اور پسندیدہ خواب دیکھے تو جس سے مناسب سمجھے بیان کرے۔” ایک اور حدیث ہاک میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص کوئی برا خواب دیکھے وہ اس کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگے۔”

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواب کے مکمل آداب بیان کیے اور خواب کی اقسام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: “خواب تین طرح کے ہوتے ہیں، ایک یہ کہ “سچا و نیک خواب” جو کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بشارت ہوتا ہے، دوسری قسم وہ خواب جس میں آدمی اپنے نفس سے ہی گفتگو کرے، تیسری قسم ایسا خواب جس میں شیطان کی طرف سے ڈرانا ہے۔”

(حاکم، المستدرک، 4 : 422، رقم : 8174)

یعنی خواب کی پہلی قسم جس کو “منجانب اللہ بشارت” کہا گیا ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے۔ اس کے خواب میں بشارت دیتا ہے اور اس کے قلب کے آئینہ میں بطورِ اشارات وعلامات ان چیزوں کو ظاہر کرتا ہے جو آئندہ وقوع پذیر ہونے والی ہوتی ہیں یا جن کا تعلق موٴمن کی روحانی وقلبی بالیدگی وطمانیت سے ہوتا ہے تاکہ وہ بندہ خوش ہو اور طلب حق میں تروتازگی محسوس کرے۔

نیز حق تعالیٰ سے حسن اعتقاد اور امید آوری رکھے، خواب کی یہی وہ قسم ہے جو لائق اعتبار اور قابل تعبیر ہے اورجس کی فضیلت و تعریف حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ (مظاہرحق جدید)

مزید پڑھیں: ہمیں کیسا تعلیمی نظام چاہیے

دوسری قسم کا خواب جو دراصل “اپنے نفس کا خیال” ہے، یعنی انسان دن بھر جن امور میں مشغول رہتا ہے اور اس کے دل ودماغ پرجو باتیں چھائی رہتی ہیں وہی رات میں بصورت خواب نظر آتی ہیں۔ اس طرح کے خواب کا کوئی اعتبار نہیں۔ اسکو تحدیث النفس اور منتشر الخیالی وغیرہ کہتے ہیں۔

جیسے آپ نے دیکھا کہ اچانک آپ مرد سے عورت بن گئے یا عورت سے مرد بن گئی یا یک لخت دیکھا کہ سرکٹ گیا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد آپ شیرنی بن گئیں، پھر دیکھا کہ پانی میں گر گئیں ہیں یا ہوا میں اڑ رہے ہیں۔ اس قسم کے اوٹ پٹانگ خوابوں کی کوئی تاویل و تعبیر نہیں ہوتی۔

تیسری قسم “ڈراؤنے خواب” کی ہے۔ یہ خواب اصل میں شیطانی اثرات کا پرتو ہوتا ہے۔ شیطان مختلف غلط اور جھوٹے خیالات و اوہام بندے کے دل و دماغ میں پیدا کرتا رہتا ہے۔ کبھی تو وہ کسی ڈراؤنی شکل وصورت میں نظر آتا ہے جس سے خواب دیکھنے والا انتہائی خوفزدہ ہوجاتا ہے۔ کبھی شیطان اس طرح کے خواب دکھلاتا ہے جس میں سونے والے کو اپنی زندگی خطرے میں نظر آتی ہے، جیسے وہ دیکھتا ہے کہ میرا سر قلم ہوگیا وغیرہ وغیرہ۔

جب تک برے خواب کو کسی سے بیان نہ کر دیا جائے تو دوسری قسم کے خواب کی طرح یہ بھی بے اعتبار اور ناقابل تعبیر خواب ہوتے ہیں۔ اس طرح کے ڈراؤنے اور برے خواب سے حفاظت کے لیے حدیث پاک میں اس دعا کی ہدایت دی گئی ہے کہ یہ دعا مانگی جائے:

”میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے کلمات تامات کے ذریعہ خود اس کے غضب اور عذاب سے اوراس کے بندوں کے شر سے اور شیطانی وسوسوں و اثرات سے اوراس بات سے کہ شیاطین میرے پاس آئیں اور مجھے ستائیں“۔ (ابوداؤد وترمذی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی ہے کہ جو شخص برا اور ناپسندیدہ خواب دیکھے اس کو چاہیے کہ جاگنے پر بائیں طرف تین بار تھتکار دے (یعنی تھوک دے یا تھو تھو کردے) اور تین بار شیطان سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگے (اعوذ باللہ پڑھے یا اوپر ذکر کردہ دعا پڑھے) اور اپنی اس کروٹ کو تبدیل کر دے جس پر وہ خواب دیکھنے کے وقت سو رہا تھا۔ (مشکوٰة شریف:۳۹۴)

دوسری حدیث شریف میں ہے کہ جب کوئی اس طرح کا برا خواب دیکھے تو اس طرف توجہ نہ دے اور نہ اس کو کسی دشمن یا دوست کے پاس بیان کرے، اللہ کی پناہ مانگنے اور تین بار تھتکارنے سے ان شاء اللہ وہ اس برے خواب کے مضر اثرات سے محفوظ رہے گا۔

ابورزین عقیلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خواب کو جب تک بیان نہ کیا جائے وہ پرندہ کے پاؤں پر ہوتا ہے اور جب اس کو کسی کے سامنے بیان کردیا جاتا ہے تو وہ واقع ہوجاتا ہے“
(مشکوٰة: ۳۹۶)
یعنی اچھے خواب کو ضرورتاً بیان کیا جاسکتا ہے جبکہ برا خواب کسی کو بیان ہی نہ کیا جائے۔ ورنہ جیسے ہی کوئی اسکی غلط تعبیر کرے گا ویسے ہی واقع ہو سکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائے۔ آپ قرآن مجید کے چاروں قل شریف ہر رات پڑھ کر سویا کریں اور پانی پر دم کر کے پیا بھی کریں۔ نیز دفع آفات و بلیات کے لیے آپ الْوَلِيُّ کا وظیفہ کریں۔ آپ اس کا ورد اول و آخر 11، 11 مرتبہ درود شریف پڑھ کر سو (100) مرتبہ روزانہ کریں۔ اس وظیفہ کی برکت سے ہر قسم کی آفات و بلیات ٹل جائیں گی اور گھر کے تمام افراد ہر قسم کی آفات و بلیات سے محفوظ رہیں گے۔ ان شاء اللہ۔

تحریر: حافظ حافظ عبدالوحید ضیاء

اپنا تبصرہ بھیجیں