
پاکستان تحریک انصاف کا جلسہ کامیاب تھا یا ناکام ، جلسے میں چند سو افراد تھے یا لاکھوں کا مجمع تھا؟ جلسہ پہلے والے جلسوں سے بڑا تھا یا چھوٹا تھا۔ پی ٹی آئی رہنماؤں میں سے کس کی تقریر نے عوام میں جوش و ولولہ پیدا کیا اور کون سا رہنما عوام میں مقبولیت پیدا نہ کر سکا ۔
یہ تمام باتیں زیر بحث آنی چاہیں اور ایسی باتوں میں کہیں نہ کہیں جمہوریت کا حسن بھی چھپا ہے کے حکومتی پارٹی جلسے کو ناکام دکھاتی ہے جبکہ جلسہ کرنے والی پارٹی اس کو کامیاب۔ لیکن ایک کام جو اس جلسے میں پی ٹی ائی کو نہیں کرنا چاہیے وہ وزیراعلی پنجاب کے خلاف قابل مذمت کمپین ہے۔
وزیراعلی علی امین گنڈاپور نے 8 ستمبر کے جلسے میں پنجاب میں اپنے قافے کو بارات لانے سے تشبیہ دی تو اس کے بعد سے تحریک انصاف کا سوشل میڈیا ونگ بدقسمتی سے وزیراعلی پنجاب مریم نواز کے خلاف کمپین پر جتا ہوا ہے۔
مزید پڑھیں: آئینی ترامیم کیلئے نمبر گیم پوری کرنے کیلئے حکومت نے نیا پتا کھیل دیا
اس کمپین میں علی امین خان گنڈاپور کو دلہا جبکہ مریم نواز کو دلہن دکھایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے تحریک انصاف کے کارکنان نے کئی ویڈیوز بھی بنا رکھی ہیں جو سوشل میڈیا پر شیئر کی جارہی ہیں۔
اگر یہ کیمپین صرف کارکنان تک محدود رہتی تو پھر بھی اس کا قلعہ قمع کرنے میں آسانی ہوتی لیکن یہاں تو پی ٹی آئی کی دستیاب قیادت بھی اس کمپین میں پیش پیش ہے جو کہ ایک خوفناک عمل ہے۔
اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور ان کی اہلیہ بشرہ بی بی کے خلاف جس قسم کی گھٹیا کیمپین چلائی گئی وہ قابل مذمت ہے لیکن اس کا یہ مقصد نہیں کہ پی ٹی آئی ویسی ڈگر پر چل نکلے۔
اگر اس کمپین کو بند نہ کیا گیا تو پی ٹی آئی اپنے خلاف لگنے والے اس الزام کو کبھی نہیں دھو پائے گی کہ پی ٹی آئی نے سیاست میں اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا۔