ٹرینڈنگسوشل

پاکستان میں شادی اب 50 لاکھ میں

دو کپڑوں میں بیٹی بیاہ دینا، اب ایک محاورہ بن کر رہ گیا ہے جسے پاکستان میں تاریخ کی کتابوں میں تو ڈھونڈا جا سکتا ہے لیکن حقیقت سے اس کا دور تک کا کوئی ربط نہیں۔
پاکستان میں آئے روز شادی کے رسوم و رواج میں تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں جس کی وجہ سے شادی اب مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔ میڈیا بالخصوص سوشل میڈیا ان روایات میں تبدیلی کا سب سے بڑا محرک ہے۔

پاکستان میں شادیاں اب پچاس لاکھ میں:

انڈسٹری ایکسپرٹس اور شادی کی تقریبات کیلئے سروسز دینے والے ماہرین کے مطابق پاکستان میں شادی کی تقریبات پر صرف کی جانے والی رقم میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے جس کے بعد کئی فیملیزاب تقریبات پر 50 لاکھ تک کا خرچہ کر رہی ہیں۔
نئی رسومات جیسا کہ برائڈ ٹو بی ایونٹ، مہندی نائٹ ، ڈھولکی نائٹ نے شادی کی تقریب کو ایک پورے ہفتے پر پھیلا کر رکھ دیا ہے۔ ان تمام تقریبات میں پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے جس کا مقصد رشتہ داروں اور معاشرے کے دیگر افراد کی خوشنودی حاصل کرنا ہوتا ہے۔ یہ ٹرینڈ زیادہ تر سوشل میڈیا انفلوائسرز اور سیلبرٹیز سے معاشرے میں پھیل رہا ہے۔ لوگ ان مشہور شخصیات کو فالو کرتے ہیں اور ان جیسا بننے کی کوشش میں وہ لاکھوں بہا رہے ہیں۔

شادی کی تقریبات میں پیچیدگیوں کے نقصانات:

شادی کی تقریبات میں دکھاوے کے فروغ کی وجہ سے بہت سے لوگ اب یا تو شادی کرنے میں دیر کر دیتے ہیں جو کئی پیچیدگیوں کو جنم دیتا ہے یا پھر لوگ اس ایک تقریب کیلئے زندگی بھر کی جمع پونجی لگا دیتے ہیں۔
جن کے پاس کچھ خاص جمع پونجی نہ ہو وہ اس ایونٹ کیلئے ادھار رقم کے حصول کی کوشش میں اکثر سود میں پھنس جاتے ہیں یا پھر جن سے ادھار لیا ہو انہیں بروقت نہ لوٹا سکنے کی وجہ سے شادی کی تقریب پر جو لاکھوں صرف کر کے معاشرے میں نام بنانے کی کوشش کی ہوتی ہے وہ مٹی میں مل جاتا ہے۔

مزید پڑھیں:

والدین شادی نہیں کراتے، نوجوان شکایت لے کر تھانے پہنچ گیا

 

معاشرے کے رسوم و رواج کو ختم کرنا حکومتوں کی ذمہ داری نہیں ہوتی۔ حکومتیں جس حد تک کر سکتی ہیں وہ شادی ہالوں میں ون ڈش کے قوانین پر عملدرآمد کرانا ہے۔ لیکن یہاں بھی لوگ خوش نہیں ہوتے اور سہولت سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اس سے فرار کے رستے نکالتے ۔
یہ عوام الناس پر ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ وہ ایسے معاملات میں دینی احکامات کو مد نظر رکھتے ہوئے نکاح کی مقصد کو سامنے رکھیں اور اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
اس کوشش میں ان کو یقیناً کامیابی ہو گی اور اللہ کی خوشنودی بھی حاصل ہو گی۔ رہی بات زمانے والوں کی باتوں کی تو جب لوگوں کی باتوں کو نظر انداز کر کے اپنی حیثیت کے مطابق شادی کرنے والوں کی تعداد بڑھ جائے گی تو معاشرے سے ان رسوم و رواج کا قلع قمع ہو جائے گا۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button