نواز شریف

نواز شریف مسلم لیگ ن حکومت سے کنارہ کش

نواز شریف گزشتہ سال خود ساختہ جلا وطنی کے بعد وطن واپس لوٹے تو ان کا انداز فاتحانہ تھا اور انکے ساتھ پاکستان کو نواز دو جیسے نعرے جوڑ کر یہ بات ایک بار پھر پاکستانیوں کو ذہن نشین کروائی جارہی تھی کے تیاری پکڑ لیں، میاں صاحب چوتھی بار وزیر اعظم بن رہے ہیں۔
تاہم 8 فروری کے انتخابات نے میاں صاحب اور مسلم لیگ کی آنکھیں کھول کر رکھ دیں۔ اگر صحیح معنوں میں انتخابی بے ضابطگیوں کا آڈٹ ہوا تو میں صاحب اپنی سیٹ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے تاہم ابھی مرکز اور پنجاب میں انکی حکومت ہے لیکن وہ اپنی مرکز کی مسلم لیگ ن حکومت سے کنارہ کش ہی نظر آتے ہیں۔
28 مئی کو ایک بار پھر مسلم لیگ ن کے صدر منتخب ہونے کے بعد نواز شریف سے توقع کی جارہی تھی کہ اب وہ حکومتی معاملات میں ایکٹو ہونگے۔ اس کا ایک مظاہرہ انہوں نے اگلے ہی دن کیا جب انہوں نے بجٹ سے متعلق اجلاس جاتی عمرہ میں طلب کیا۔
امید کی جارہی تھی کہ اس کے بعد نواز شریف وفاقی حکومت پر سپر وزیر اعظم بن کر کام کریں گےلیکن یہ گرد بھی تھوڑے دنوں کے بعد بیٹھ گئی اور ایسا بجٹ سامنے آگیا جس کے بارے میں سینئر صحافی حامد میر نے دعویٰ کیا کہ اس بجٹ میں پیپلز پارٹی تو کیا ن لیگ سے بھی مشاورت نہیں کی گئی۔
نواز شریف نے تمام تر بجٹ اجلاس میں شرکت نہ کی اور اس حوالے سے انہوں نے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کو چھٹی کی درخواست بھی بھجوا دی جو منظور کر لی گئی۔

مزید پڑھیں‌:عمران خان نے فواد چوہدری کو پی‌ٹی آئی چھوڑنے کا مشورہ کیوں دیا

پارٹی سربراہ ہونے کے ناطے ان سے امید کی جارہی تھی کہ وہ بجٹ میں اپنی تجاویز دیں گے لیکن انہوں نے بجٹ اجلاس میں ہی شرکت سے معذرت کر لی۔ مسلم لیگ ن کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ بھاری بھرکم ٹیکسوں کی وجہ سے نواز شریف سخت نالاں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ بجٹ اجلاس میں شرکت نہیں کر رہے۔
نواز شریف 8 فروری کے انتخابات کے بعد اپنا ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ بھی کھو چکے ہیں اور ان کے میاں جاوید لطیف جیسے قریبی عزیز بھی اس بات کو برملا تسلیم کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت اسٹیبلشمنٹ کی قائم کردہ ہے جس پر انکا کوئی اختیار نہیں۔
وزیر خزانہ محمد اورنگزیب ہوں یا وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی دونوں ہی بظاہر وزیر اعظم شہباز شریف سے طاقتور نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف اپنی مسلم لیگ ن حکومت سے کنارہ کش ہوتے جارہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں