ایک عورت سڑک پر ایک آدمی کے پاس آتی ہے اور کہتی ہے،معاف کیجئے جناب، میں ایک چھوٹا سا سروے کر رہی ہوں، کیا میں آپ سے کچھ سوال کر سکتی ہوں؟
آدمی جواب دیتا ہے کہ جی بالکل۔
عورت:فرض کریں کہ آپ بس میں بیٹھے ہیں اور ایک خاتون بس میں سوار ہوئی اور اس کے پاس سیٹ دستیاب نہیں ہے، کیا آپ اس کے لیے اپنی سیٹ چھوڑ دیں گے؟
آدمی – بالکل نہیں۔
اس عورت نے اپنے پاس موجود پیپر پر نظر دوڑاتے ہوئے بےادب کے خانہ پر ٹک کرتے ہوئے دوسرا سوال کیا: اگر بس میں سوار خاتون حاملہ ہو تو کیا آپ اپنی سیٹ چھوڑ دیتے؟
آدمی: نہیں۔
اب کی بار خود غرض پر ٹک کرتے ہوئے اگلا سوال کیا: اور اگر وہ خاتون جو بس میں سوار ہوئی وہ ایک بزرگ خاتون ہوں تو کیا آپ اسے اپنی سیٹ دیں گے؟
آدمی: بالکل نہیں۔
مزید پڑھیں: کتنے فیصد پاکستانیوں کی محبت کی شادی؟ سروے آگیا
عورت: (غصے سے) تم ایک نہایت خود غرض اور بے حس آدمی ہو۔ جس کو خواتین کا ، بڑے اور ضعیف افراد کے آداب نہیں سکھائے گئے۔یہ کہتے ہوئے عورت آگے چلی گئی۔
پاس کھڑے دوسرا آدمی جو یہ بات چیت سن رہا تھا، اس بندے سے پوچھتا ہے کہ اس عورت نے تمہیں اتنی باتیں سنائیں تم نے کوئی جواب کیوں نہیں دیا ؟
تو اس آدمی نے جواب دیا:یہ عورت اپنی چھوٹی سوچ اور آدھی معلومات کی بنا پر سروے کر کے لوگوں کا کردار طے کرتی پھر رہی ہے، اگر یہ مجھ سے سیٹ نا چھوڑنے کی وجہ پوچھتی تو میں اسے بتاتا کہ میں ایک بس ڈرائیورہوں۔
ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ ہم ادھوری معلومات سے ہی سروے کر بیٹھتے ہیں اور دوسروں کو جانچنے کی کوشش کرتےہیں۔ ہمارے پاس ان کے متعلق تھوڑی سی معلومات دستیاب ہوتی اور اسے بنیاد بنا کر ہم ان پر کئی فتوے لگا دیتے ہیں۔