
سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ کی جانب سے اجازت کے بعد ملٹری کورٹس نے 85 ملزمان کو سزائیں سنا دی ہیں جس میں 2 سال سے لیکر 10 سال تک کی سزائیں ہیں۔ ملٹری کورٹس سزا یافتہ ملزمان کےپاس اپیل کا حق بہر حال موجود ہے اور یہ حق وہ ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ میں استعمال کر سکتے ہیں۔
تاہم لگتا ہے کہ انہیں یہ حق استعمال کرنے میں بھی دقت کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ ایسا نظر آنا شروع ہو چکا ہے۔
ملٹری کورٹس سزا یافتہ ملزمان کو اب جیلوں میں منتقل کر دیا گیا ہے لیکن وکلاء کو ان تک رسائی اور وکالت ناموں پر دستخط کرانے کیلئے بھی عدالتوں سے رجوع کرنا پڑ رہا ہے جو کہ اپنے آپ میں ایک نئی مشکل ہے جس کا ان ملزمان کو سامنا ہے۔
ایسی ہی ایک درخواست ملٹری کورٹ سزا یافتہ ارزم جنید کے والد نے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی جس میں کہا گیا کہ بیٹے کو 25 دسمبر کو ملٹری کورٹ سے سزا سنائی گئی اور بعدازاں 27 دسمبر کو کوٹ لکھپت جیل منتقل کر دیا گیا۔ تاہم اب سزا کے خلاف اپیل دائر کرنے کیلئے وکالت ناموں پر دستخط نہیں کرانے دیئے جارہے۔
مزید پڑھیں:ملٹری کورٹس سے سزا یافتہ مجرمان کا ضمانت کا کیا بنے گا؟
متاثرہ شہری نے عدالت سے درخواست کی کہ جیل انتظامیہ کو وکالت نامے پر دستخط کرانے کی اجازت کا حکم نامہ دیا جائے۔
درخواست پر لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی ضیاء باجوہ نے حکم نامہ جاری کرتے ہوئے وکالت نامے پر دستخط کا حکم دے دیا۔
کورٹ رپورٹر ثاقب بشیر کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ حد ہو گئی اس فئیر ٹرائل کی بھی۔ اپیل وکالت نامے پر دستخط کرانے کے لیے بھی قیدی کی فیملی کو ہائیکورٹ سے رجوع کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ جیلوں کے سپرنٹنڈنٹ بھی الگ ہی ریاست کے اندر ریاست بنے ہوئے ہیں۔