قطرہ قطرہ خوراک، سمندر جیسی بھوک؛ 100 فیصد غزہ آبادی قحط زدہ قرار
غزہ کے ہسپتالوں سے معلومات پانے کے بعد بین الاقوامی نشریاتی ادارے نے آگاہ کیا کہ امداد کیلئے آئے ایسے 20 افراد کو ہسپتالوں میں لایا گیا جنہیں اسرائیلی فورسز کی جانب سے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

اقوام متحدہ نے غزہ کو دنیا کی سب سے زیادہ غذائی قلت کا شکار علاقہ قرار دے دیا ہے جہاں 100 فیصد غزہ آبادی اب قحط کے نشانے پر ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی فورسز کی جانب سے محصور آبادی کو بمباری کا نشانہ بنائے جانے اور امداد کیلئے آنے والے غزہ کے باسیوں پر گولیاں برسانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
100 فیصد غزہ آبادی قحط زدہ قرار:
جمعہ کے روز اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ہم آہنگی انسانی امداد (OCHA) کے ترجمان جینس لیرکے نے جنیوا میں رپورٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے غزہ کو دنیا کی سب سے زیادہ بھوک کا شکار مقام قرار دے دیا۔
اس موقع پر جینس لیرکے کا کہنا تھا کہ غزہ دنیا کا واحد مقام ہے جہاں تقریباً تمام آبادی یعنی کہ 23 لاکھ لوگ اب ہولناک بھوک (قحط) کے دہانے پر ہیں۔
انہوں نے غزہ میں آنے والی امداد کا محض پانی کا ایک قطرہ قرار دیا اور کہا کہ یہ متاثرہ آبادی میں بوند بوند خوراک پہنچانے کے مترادف ہے۔
جینس لیرکے کا مزید کہنا تھا کہ ” جو امداد ہم تیار کئے بیٹھے تھے اس عملی رکاوٹوں میں جکڑ دیا گیا ہے۔ ”
انہوں نے مزید کہا کہ یہ نہ صرف آج کی دنیا بلکہ حالیہ تاریخ میں سب سے زیادہ رکاوٹوں کا شکار امدادی آپریشن بنا دیا گیا ہے۔
مسٹر لیرکے کے مطابق اسرائیل کی جانب سے مںظور شدہ 900 امدادی ٹرکوں میں سے 600 سے کم ٹرکوں کو غزہ تک رسائی ملی۔
انہوں نے مزید وضاحت کی کہ اس سے بھی کم تعداد غزہ میں تقسیم تک پہنچی جس میں اسرائیلی کی جانب سے منظوریوں میں غیر ضروری تاخیر اور غیر محفوظ راستوں کا انتخاب ہے۔
امداد کیلئے جانے والی غزہ کے باسیوں کا قتل عام:
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ہم آہنگی انسانی امداد کے ترجمان نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کی حمایت یافتہ ایک مشکوک اور غیر سرکاری تنظیم غزہ ہیومنیٹیرین فاؤنڈیشن (GHF) کے ذریعے غزہ میں امداد کی رسائی ممکن بنائی جارہی ہے۔
اس تنظیم کی جانب سے جن مقامات پر خوراک اور دیگر انسانی امداد کی تقسیم کی جارہی ہے وہ اسرائیلی فورسز کے زیر تسلط علاقے کے قریب ہے۔
مزید پڑھیں: غزہ کے 14 ہزار بچوں کی زندگی کیلئے اگلے 48 گھنٹے اہم قرار
غزہ کے ہسپتالوں سے معلومات پانے کے بعد بین الاقوامی نشریاتی ادارے نے آگاہ کیا کہ امداد کیلئے آئے ایسے 20 افراد کو ہسپتالوں میں لایا گیا جنہیں اسرائیلی فورسز کی جانب سے گولیوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
رواں ہفتے کے آغاز پر بھی امداد کے حصول کیلئے آنے والے 10 افراد کو اسرائیلی فورسز کی جانب سے نشانہ بنایا گیا تھا۔
بھوک سے لڑتے شہری ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ وہ امداد مراکز سے اپنے اہل خانہ کیلئے خوراک حاصل کر سکیں۔
اس تگ و دو میں اسرائیلی فورسز کا نشانہ بننے کے ساتھ شہریوں کی گمشدگی کا سلسلہ جاری ہے جس میں بین الاقوامی میڈیا کے مطابق بہت سے لوگوں نے شکایت کی کہ ان کے گھر کے افراد امداد کیلئے مرکز تک پہنچے لیکن واپس نہ آئے۔
اسرائیلی کی جانب سے اقوام متحدہ اور دیگر امدادی ٹیموں کو رسائی نہ دینے اور اپنی منظور نظر امدادی تنظیموں کو رسائی دینے کی وجہ سے امداد کی آبادی تک ترسیل میں رکاوٹیں ہیں۔
ایک جانب اسرائیلی فورسز کی جانب سے امداد کے حصول کیلئے آنے والوں کو غائب اور گولیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے تو دوسری جانب معذور، بزرگ شہریوں اور بچوں تک خوراک کی رسائی ممکن نہیں ہو پارہی ہے۔
غزہ میں انسانی المیہ برقرار:
اس سے قبل اقوام متحدہ کی جانب سے خبردار کیا گیا تھا کہ غزہ میں امداد نہ پہنچی تو بچوں کی کثیر تعداد کی جان خطرے میں ہوگی۔
اس کے بعد بین الاقوامی پریشر پر اسرائیلی فورسز نے محدود امدادی ٹرکوں کی غزہ تک رسائی دی لیکن بچوں کی اموات کا سلسلہ جاری ہے کیونکہ متاثرہ افراد تک مطلوبہ مقدار میں امداد نہیں پہنچ پا رہی ہے۔
فلسطینی صحافیوں اور بین الاقوامی اداروں کے مطابق غزہ میں روزانہ کی بنیاد پر 500 سے زائد ٹرک امدادی سامان کی ضرورت ہے۔
دوسری جانب غزہ کے محکمہ صحت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس جنگ میں اب تک 54 ہزار سے زائد شہری لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
جبکہ خیال کیا جارہا ہے کہ یہ اعداد و شمار ابھی اصل نمبر سے کہیں کم ہیں کیونکہ ملبے تلے دبے ہزاروں افراد کے مردہ ہونے کا قوی امکان ہے۔