یہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے کہ جب جب کسی ڈکٹیٹر نے آئین پر شب خون مارا اور حکومت سنبھال بیٹھا تو اس کا مؤقف یہی رہا کہ آئین ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے جسے کسی ردی کی ٹوکری میں پھینکا جا سکتا ہے۔ڈکٹیٹرز برملا زبان سے اس جملے کا اظہار کرتے تھے اور آئین میں من مرضی کی ترامیم لا کر یہ بھی ثابت کرتے تھے کہ ان کے نزدیک آئین کی حیثیت کاغذ کے ٹکڑے سے بڑھ کر نہیں ہے۔
ایسے میں سیاستدان ہی تھے جو انکے اس بیانیے کے خلاف ڈٹ جاتے تھے اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ آئین کو کاغذ کا ٹکڑا قرار دینے والے کسی بھی ڈکٹیٹر کا نام زندہ نہیں ہے، لیکن آئین کیلئے کھڑے ہوجانے والے سیاستدانوں کو آج بھی قوم یاد رکھتی ہے۔
پر افسوس کے اب سیاستدانوں نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ ڈکٹیٹرز ان سے زیادہ دور اندیش تھے۔ مارشل لاء نافذ کرنے والوں نے جو طرز عمل اپنایا آج اسی طرز عمل پر جمہوری سیاسدانوں نے آئینی ترامیم منظور کرا لیں اور جس طرح کی ترامیم منظور کرائی گئی ہیں ان سے ثابت ہوتا ہے کہ واقعی اب سیاستدان بھی آئین کو کاغذ کا ٹکڑا ہی سمجھتے ہیں جس میں جب چاہیں من مرضی کی ترامیم کی جاسکتی ہے۔
مزید پڑھیں:سینیٹ سے منظور 26 ویںآئینی ترمیم میںکیا شامل ہے؟
یہاں عدلیہ کا کردار بھی قابل غور ہے کہ جب جب کسی ڈکٹیٹر نے مارشل لاء نافذ کیا تو اس کے راستے میں واحد رکاوٹ عدلیہ بن سکتی تھی۔ لیکن عدلیہ نے ہمیشہ اس عمل کی تائید اور سہولتکاری کی۔
آج آئینی ترامیم کی مںظوری کیلئے حکومت نے جو طرز عمل اپنایا اور اپوزیشن جماعتوں کے اراکین کو اغواء، لالچ یا دھونس دھمکی سے آئینی ترامیم منظور کرائیں تو اس سے قبل 63 اے کے کیس میں عدلیہ نے منحرف اراکین کا ووٹ شمار کرنے کی اجازت دے کر اس عمل کی سہولتکاری کی۔
یوں جمہوری سیاستدانوں نے سالوں بعد یہ ثابت کر دکھایا کہ ڈکٹیٹر دور اندیش تھے اور آئین کاغذ کا ٹکڑا ہے۔