
22 اپریل 2025 کو پہلگام حملے میں انسانی جانوں کے افسوسناک ضیاع کے بعد دونوں ہمسائیہ ممالک ایک بار پھر آمنے سامنے آ کھڑے ہوئے۔
بات الزامات سے شروع ہوئی، تحقیقات کی نفی سے ہوتی ہوئی بالاآخر ایک دوسرے پر حملوں تک جا پہنچی۔
2019 کے بعد دونوں ہمسائیہ ممالک ایک بار پھر آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے تھے اور کسی بھی وقت خطرناک جنگ کا خطرہ منڈلانے لگا تھا۔
پھر دنیا کے بڑے نام اس لڑائی میں صلح صفائی کو کودے اور سیز فائر کرائی۔
لیکن یہ سیز فائر صرف جنگی حدود تک کی تھی۔ سفارتی حدود، تجارتی حدود اور دیگر مقامات پر اس جنگ کو جاری رکھا گیا۔
بھارت نے پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ یک طرفہ طور پر معطل کر دیا اور بین الاقوامی اور انڈین میڈیا سے حاصل ہونے والی خبروں کے مطابق بھارت نے پاکستان کے پانی پر ڈیم اور نہریں بنانے کا کام بھی تیز کر دیا ہے۔
دوسری جانب پاکستان کی طرف سے بھی انڈیا کیلئے اپنی فضائی حدود کے استعمال پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ ساتھ ہی یہ خبریں بھی زیرگردش تھیں کہ دونوں ممالک کے ساتھ تجارت بھی معطل ہو گئی ہے۔
لیکن سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری ہونے والے حالیہ اعداد و شمار تو کچھ اور ہی کہانی بیان کر رہے ہیں۔
نہ صرف پاک انڈیا تجارت خاموشی سے جاری ہے بلکہ اس کے حجم میں پچھلے دو سالوں کی نسبت اضافہ بھی دیکھا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: اب کبھی سندھ طاس معاہدہ بحال نہیں ہوگا، انڈیا کی دھمکی
تعلقات میں سرد مہری، لیکن پاک انڈیا تجارت جاری:
سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کا بھارت سے درآمدات کا حجم 211 ملین سے زائد رہا ہے جو کہ پچھلے دو مالی سالوں کی نسبت زیادہ ہے۔
اس سے قبل مالی سال 2024 میں یہ حجم 207 ملین ڈالر اور سال 2023 میں یہ حجم 190 ملین ڈالر ریکارڈ کیا گیا تھا۔
مئی کے مہینے کی بات کر لی جائے تو اس جنگ زدہ ماحول میں بھی درآمدات کی سطح 15 ملین ڈالر تک پہنچ گئی جو گزشتہ سال مئی کے مہینہ سے دو ملین ڈالر کم تھی ( گزشتہ سال یہ حجم 17 ملین ڈالر تھی)۔
لیکن برآمدات کے لحاظ سے یہ مالی سال پاکستان کیلئے کچھ اچھا نہ رہا جس میں مالی سال 2025 میں مجموعی برآمدات صرف 5۔0 ملین ڈالر تھی۔ مئی کے مہینہ میں یہ سطح 1000 ڈالر تک محدود رہی۔
سال 2024 میں یہ شرح کچھ خاص نہ تھی جو اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ یہ تجارت اگرچہ جاری ہے لیکن یک طرفہ ہے۔ پاکستان کی درآمدات کئی ملین ڈالر کی لیکن برآمدات نہ ہونے کے برابر ہے۔
بھارت میں قائم گوبل ٹریڈ ریسرچ انیشی ایٹو نامی ادارے کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کا یہ حجم سالانہ 10 ارب سے زائد کا ہے۔
تجزیہ نگار اور معاشی ماہرین اس پاک انڈیا تجارت کو غیر رسمی تجارت قرار دیتے ہیں کیونکہ 2019 میں پلوامہ واقعہ اور پھر بھارت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرنے کے بعد سے پاکستان کی جانب سے رسمی طور پر بھارت سے تجارتی بائیکاٹ ہے۔