
عمران خان کے اڈیالہ جیل جانے کے بعد آج تک انہیں کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ جیل کو ہی عدالت کا درجہ دے کر یہیں بڑے مقدمات چلائے جارہے ہیں۔ جو مقدمات دیگر عدالتوں میں زیر سماعت ہیں وہاں اڈیالہ جیل حکام کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے معاملات آگے ہی نہیں بڑھ پا رہے۔
ان میں سے کئی کیسز ایسے ہی جن کی سماعت اگر درست انداز میں آگے بڑھائی جاتی تو شاید عمران خان ان کیسز میں بری ہو چکے ہوتے۔ لیکن سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نظام انصاف کی راہ میں ایسے حائل ہوئے ہیں کہ ان کے سامنے عدالتیں بھی کچھ نہیں کر پارہی۔
سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کی عدالتی احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی:
صحافی ثاقب بشیر اپنے ایک ٹویٹ میں لکھتے ہیں کہ عمران خان نے مارچ اپریل مئی 2023 میں آج سے تقریبا 21 ، 22 ماہ پہلے مختلف نوعیت کے کیسز 6 عبوری ضمانتیں کروائیں وہ چل ہی رہی تھیں 5 اگست 2023 گرفتار ہو گئے اور ضمانت عدم پیروی خارج ہو گئی۔
مزید پڑھیں:القادر ٹرسٹ کیس کا فیصلہ جلدی سنائیں، عمران خان
ہائیکورٹ نے عبوری ضمانتیں پھر بحال کر دیں تو تب سے اب تک 16 ماہ میں اسلام آباد سیشن کورٹ نے کوئی دو درجن سے زائد بار سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو آرڈر کیا عمران خان کی ویڈیو لنک حاضری کروائیں آج تک حاضری نہیں کروا گئی۔ کبھی انٹرنیٹ سلو کا بہانا کبھی ایک ایشو کبھی دوسرا کبھی تیسرا ایشو۔
ثاقب بشیر کا کہنا ہے کہ 22 ماہ سے زیر التوا عبوری ضمانتیں حاضری نا ہونے کی وجہ آگے نہیں بڑھ سکیں۔ روٹین میں عبوری ضمانتیں ایک دو یا تین ماہ چلا کرتی ہیں۔ عمران خان کے وکلا عدالت کو بار بار کہہ چکے ہیں آپ ہماری درخواستوں پر فیصلہ کر دیں لیکن عدالت کہتی ہے حاضری ضروری ہے اور جیل حکام حاضری لگوانے کے حکم پر تقریبا 18 ماہ سے عمل نہیں کر رہے ۔
ثاقب بشیر کہتے ہیں کہ حالانکہ یہ جیل تھی سپریم کورٹ ویڈیو لنک حاضری کا حکم ہوا فوری عمل ہو گیا ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے لوئر کورٹس کے آرڈرز کو حکام وزن ہی نہیں دیتے۔