بلاگزاویہ

باپ بیٹی کی محبت کی لازوال داستان

بیٹی نے جگر کا ٹکڑا عطیہ کر کے باپ کی جان تو بچالی ، مگر خود موت کے منہ میں چلی گئی

بیٹیاں باپ کے جگر کا ٹکڑا ہوتی ہیں، مگر راجہ رام کی 22 سالہ مقدس نے اس محاورے کو حقیقت میں بدل دیا۔ اپنے 50 سالہ والد خلیل احمد کی زندگی بچانے کے لیے اُس نے اپنے جگر کا 60 فیصد حصہ عطیہ کیا، مگر پیوندکاری کے بعد 15 دن کی جنگ جیت کر آج ہمیشہ کی نیند سو گئی۔ یہ کہانی محض ایک قربانی کی نہیں، بلکہ بیٹی کے وجود میں بسی باپ کی محبت کی عظیم داستان ہے۔

راجہ رام کے 50سالہ خلیل احمد عرصہ دراز سے جگر کے مہلک عارضے میں مبتلا تھے۔ ڈاکٹرز نے واضح کر دیا تھا کہ بغیر پیوندکاری کے اُن کی زندگی خطرے میں ہے۔ ایسے میں جب خاندان کے دیگر رُکن طبی شرائط پوری نہ کر سکے، تو بی ایس سی کی طالبہ مقدس نے اپنے جوان جگر کا حصہ دینے کا فیصلہ کیا۔ ڈاکٹرز کے مطابق، یہ عمل انتہائی خطرناک تھا، مگر مقدس نے کہا: "میرا وجود ہی باپ کی محبت کا مرہونِ منت ہے۔ اُن کی زندگی بچانے سے بڑھ کر کوئی صدقہ نہیں۔”

آپریشن کامیاب رہا۔ خلیل احمد کا جسم نئی زندگی کی طرف بڑھنے لگا، مگر مقدس کی حالت پیچیدہ ہوتی چلی گئی۔ 15 دن تک وہ درد، کمزوری، اور ہسپتال کی چار دیواری میں لڑتی رہی، یہاں تک کہ اُس کا دل آخرکار تھم گیا۔ خاندان کے لیے یہ لمحہ کڑواہٹ اور فخر کا مرکب تھا: ایک طرف باپ کی زندگی کی خوشی، دوسری طرف بیٹی کی رخصتی کا صدمہ۔

مزید پڑھیں: بڑھاپے میں والدین کو پروٹوکول کیوں چاہیے ہوتا ہے؟

خلیل احمد ابھی الفاظ میں اپنے جذبات بیان نہیں کر پا رہے، مگر اُن کی آنکھوں میں بیٹی کی قربانی کا سوال اور شکر گھُلے ہیں۔ محلے کے لوگ مقدس کو "جگر کی ہیروئن” کہتے ہیں۔ ایک رشتہ دار کا کہنا ہے: "وہ ہمیشہ سے بہادر تھی۔ اُس نے ثابت کیا کہ بیٹیاں نہ صرف جگر بلکہ جان تک نچھاور کر سکتی ہیں۔”

اب یہاں اک سوال پیدا ہوتا ھے کہ کیا ایسی قربانیاں طبّی اخلاقیات کے دائرے میں ہیں؟ کیا والدین کو اولاد کی ایسی بے پناہ محبت کا حق ہے؟ مقدس کی موت نے ان سوالوں کو پھر سے زندہ کر دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ عطیہ دینے والے کی صحت کے خطرات کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے، مگر خاندانی جذبات اکثر منطق پر غالب آ جاتے ہیں۔

مقدس کی کہانی محبت کی اُس انتہا کو چُھوتی ہے جہاں زندگی اور موت کا فرق مٹ جاتا ہے۔ وہ چلی گئی، مگر اپنے پیچھے ایک باپ کی سانسیں، ایک معاشرے کی آنکھوں میں نمی، اور یہ سبق چھوڑ گئی کہ
"قربانی وہ عظیم دریا ہے جس میں انسانیت کے پھول کھلتے ہیں”۔

ناصر چوہدری

ناصر چوہدری سینئر صحافی ہیں جو عرصہ دراز سے صحافت کے مقدس پیشے سے وابستہ ہیں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button