
پاکستان میں ڈاکٹرز کی تجویز کے بغیر ہی ادویات کے استعمال کا رحجان ہے۔ ایک شخص اپنی بیماری کا ذکر کرتا ہے تو پاس بیٹھے لوگ اسے مشورے دینے لگ جاتے ہیں کہ فلاں دوائی لے لو میں نے لی تھی ٹھیک ہو گیا تھا۔
اس کے ساتھ ہی بہت سے لوگ ڈاکٹر کی فیس کی ادائیگی کی سکت نہ رکھنے کی وجہ سے میڈیکل سٹورپر جا کر ہی مانگ کرتےہیں کہ یہ مسئلہ ہے دو تین دن کی دوا دے دیں اور یوں وہ اپنی دوا خود کر لیتے ہیں۔
یہ پریکٹس اگر پیناڈول، ڈسپرین جیسی ادویات تک محدود ہوتی تو اتنا خطرناک نہ ہوتا لیکن پاکستان میں یہ بے احتیاطی اینٹی بائیوٹکس کے استعمال میں بھی برتی جارہی ہے جس کے خوفناک نتائج برآمد ہورہے ہیں۔
پاکستان کی وزارتِ قومی صحت نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان زیادہ اینٹی بائیوٹکس استعمال کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔
اس خطرناک استعمال کی وجہ سے بہت سے ادویات اب غیر مؤثر ہوتی جارہی ہیں جن کی وجہ سے بیماریوں میں پیچیدگی بڑھتی جارہی ہے اور علاج مشکل ہورہا ہے۔
اینٹی بائیوٹک ادویات غیر مؤثر کیوں ہو جاتی ہیں؟
کوئی بھی اینٹی بائیوٹک جب لمبے عرصے تک غیر ضروری طور پر استعمال کی جاتی ہے تو بیکڑیا اس دوا کے خلاف مزاحمت پیدا کر لیتے ہیں۔
اب جب یہ دوا دوبارہ استعمال کی جاتی ہے تو بیکٹریا اس کے خلاف مزاحمت پیدا کر چکے ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اب یہ دوا قابل اثر نہیں رہتی ۔
مزید پڑھیں: کیا آپ غلط طریقے سے دوا کھاتے ہیں؟
بعض اوقات اینٹی بائیوٹک کا ایک پورے فارمولا گروپ کے خلاف ہی بیکٹریا مزاحمت پیدا کر لیتے ہیں جس سے کئی بیماریوں کیلئے مؤثر سمجھی جانے والی دوا غیر مؤثر ہو جاتی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو سالوں میں ٹائیفائیڈ بخار کے دوران اینٹی بائیوٹکس کے غیر ضروری استعمال کی وجہ سے 38 فیصد تک مریضوں پر عام اینٹی بائیوٹک ادویات کارآمد نہیں رہی۔
اسی طرح پیشاب کی نالی کے انفیکشن اور جلد کے کے انفیکشن کے روک تھام کیلئے استعمال کی جانے والی کئی ادویات بھی غیر مؤثر ہو چکی ہیں۔
اینٹی بائیوٹکس کا بے دریغ استعمال کس قدر خطرناک ہوگا؟
ماہرین اس حوالے سے خبردار کرتے ہوئے کہتےہیں کہ اگر اینٹی بائیوٹک ادویات کا غیر ضروری استعمال نہ روکا گیا تو آنے والے وقتوں میں عام بیماریوں کا علاج بھی ناممکن ہونے لگے گا اور عام انفیکشن بھی موت کا باعث بنیں گے۔
سیلف میڈیکیشن اور مستند معالجین کے مشورے کے بغیر اینٹی بائیوٹک کا استعمال ترک کرنا ہی اس مشورے کا حل ہے ۔
حکومت اگر اتنی بڑی سطح پر سیلف میڈیکیشن نہیں روک سکتی تو کم از کم یہ اصول لازم کرسکتی ہے کہ ہر میڈیکل سٹور پر فارماسسٹ ضرور موجود ہو تا کہ عوام کو بہتر انداز میں ادویات تک رسائی حاصل ہو اور جان بچانے والی ادویات غیر مؤثر نہ ہوں۔