
پاکستان میں اچھی اردو لکھنے اور بولنے والوں کا قحط سا پیدا ہورہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اپنی زبان سے بھاگنا اور دیگر زبانوں کو اپنانا ہے۔
پاکستان میں اب بچے صرف درسی کتب میں اردو کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ باقاعدہ طور پر اردو سیکھنے کا رحجان باقی نہیں رہا۔
لیکن اب بچوں کیلئے اردو سیکھنے کے اس واحد انتظام یعنی کہ درسی کتب میں بھی ایسی غلطیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں جنہیں دیکھ کر انسان سر پکڑ لے۔
داغ دہلوی کے شعر کو بطورحوالہ لیا جائے تو کچھ یوں ہوگا،
نہیں کھیل اے داغؔ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
اردو کی درسی کتب میں غلطیاں دریافت:
اردو کے مشہور اور ضعیف اسکالر محمد احسن خان جو کہ لاہور سے تعلق رکھتے ہیں اور اردو زبان کے ماہر سمجھے جاتے ہیں ، نے حال ہی میں اردو زبان کی درسی کتب میں ایسی غلطیاں نکالی ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
زبان سے عشق کے حد تک تعلق رکھنے والے محمد احسن خان نے پایا کہ فیڈرل بورڈ کی اردو کتب میں غلطیوں کی بھرمار ہے جبکہ ان میں شامل اردو کی لغت بھی گمراہ کن ہے۔
ماہرِ اردو زبان نے پایا کہ اردو کی گیارہویں جماعت کی نصابی کتاب کے صفحہ نمبر 131 پر لفظ "لاابالی” کا مطلب دیکھا جو لکھا تھا "جوش والاطبعیت”۔
اس میں اول مسئلہ لفظ کی گرائمر کا تھا۔ جوش والا طبعیت کی بجائے اسے جوش والی طبعیت ہونا چاہیے تھا کیونکہ گرائمر کی رو سے طبعیت مؤنث تصور ہوتی ہے۔
اس طرح لاابالی کا یہ معانی بھی مکمل درست نہیں۔ اس کیلئے بے پرواہ مزاج کے معانی استعمال کئے جاتے تو وہ قابل قبول تھے۔
اسی طرح لفظ دستک کا معنی دروازہ کھٹکھٹانا کر دیا گیا۔ یعنی کہ دروازے پر دستک (اسم ) کو فعل (دروازہ کھٹکھٹانا ) سے تبدیل کر دیا گیا اور اس میں کوئی عار بھی محسوس نہ کی گئی۔
مذکورہ سکالر نے مزید پایا کہ جماعت دہم کی اردو کی کتاب میں ایک مقام پر لفظ "خلش” کا ترجمہ وہ خواہش کیا گیا جو کہ کبھی پوری نہ ہو۔
مزید پڑھیں: ڈیجیٹل تھکاوٹ کیا ہے؟ اس کی علامات کیا اور کیسے بچا جائے؟
حالانکہ خلش کا لفظ اردو میں فارسی سے مستعار لیا گیا ہے جس کا مطلب "کانٹے کی چبھن ” ہے یعنی کہ وہ پریشانی یا رنج جو ذہن میں چبھتی رہے۔
اسی طرح حیرت انگیز طور پر ایک مقام پر لفظ سفید پوش جو کہ ایک استعارے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے کا معنی لیا گیا کہ وہ شخص جو سفید کپڑے پہنے۔
حالانکہ یہ زبان زدِ عام استعارہ ہے اور اس کا مطلب وہ شخص ہوتا ہے جو غریب ہوتے ہوئے بھی با وقار طریقے سے زندگی گزارے اور کسی کے سامنے سوال نہ کرے یا دامن نہ پھیلائے۔
الفاظ کے معانی غلط ہونا، گرائمر کی غلطیوں سمیت پروف ریڈنگ کی بھی کئی غلطیاں پائی گئیں جو اس بات کی واضح نشانی دے رہی ہیں کہ کتاب کسی زبان دان کے ہاتھ سے نہیں گزری۔
ان غلطیوں کو نظر انداز کرنا کیوں مشکل ہے؟
درسی کتب کی ان غلطیوں کو اجاگر کرنا اس لئے ضروری ہے کہ ہمارے ہاں رائج امتحانی نظام کی وجہ سے طلباء کو کتاب میں لکھا ہوا لفظ رٹا رٹایا پیپر میں لکھنا ہوتا ہے۔
اگر وہ غلط پڑھیں گے تو غلط لکھیں گے۔ اگران کی اصلاح کی کوشش کی جائے گی تو وہ غلطی تسلیم کرنے کی بجائے کتاب کو بطور ثبوت پیش کریں گے۔
یوں یہ غلط الفاظ ان کے شعور کا حصہ بن جائیں گے ۔ یا تووہ ان الفاظ کے غلطی ترجمے کے زیر اثر زندگی گزاریں گے یا پھر وہ آگے بھی ان کی ترویج کرتے نظر آئیں گے۔
اردو زبان کے ساتھ یہ بھی مسئلہ ہے کہ بہت سے غلط الفاظ اب زبان زدِ عام ہو چکے ہیں اور انہیں غلط لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔
اگر کوئی ان کی اصلاح کیلئے لغت سے حوالے دینے لگ جائے تو اسے مزاح کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
یوں ایک لفظ غلط العام ہو جاتا ہے لیکن اس کی اصلاح کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔