آرٹیکلزاویہ

ابصار عالم صاحب ذرا اپنے گریبان میں بھی جھانکیں

یوں تو صحافت غیر جانبدارانہ عمل کا نام ہے لیکن پاکستان میں اب ایسا نہیں رہا۔ سیاسی پارٹیوں کو نہ صرف صحافی بلکہ پورے کے پورے نیوز چینل ہی میسر ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں اور طاقتور حلقوں کے قریب سمجھے جانے والے صحافی اب ایک دوسرے سے الجھتے دکھائی دیتے ہیں اور ایک دوسرے کو صحافت کے رموز و اوقاف سکھاتے دکھائی دیتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہےکہ جانبدارانہ طرزِ عمل صحافت کے قریب سے بھی نہیں گزرتا۔
پہلے صحافیوں کی یہ آپس کی لعن طعن صرف سوشل میڈیا تک محدود تھی لیکن اب اس نے نیوز چینلز کا رخ کر لیا ہے ۔

جب ابصار عالم اس لڑائی کو مین سٹریم میڈیا پر لے آئے :

گزشتہ دنوں ابصار عالم اچانک نجی نیوز چینل سماء پر اپنے پروگرام میں نمودار ہوتے ہیں۔ وہ نام لئے بغیر عمران ریاض خان، صابر شاکر، معید پیرازدہ اور دیگر کے خلاف زہر اگلتے ہیں۔
ان کیلئے گدھ، منافق ، لاشوں پر پلنے والے الفاظ کے ساتھ ابصار عالم کچھ کمائی کے ریکارڈ بھی دکھاتے رہے کہ یہ فلاں صحافی نے نومبر کے مہینہ میں اتنا کمایا ، فلاں نے اتنا کمایا۔
ابصار عالم پی ٹی آئی کے 26 نومبر کے دھرنے کو لے کر بولے کہ غریب ماؤں کے بچے ننگے پاؤں، خالی پیٹ اسلام آباد کی سڑکوں پر بے یارو مددگار اور پی ٹی آئی یوٹیوبرز کی کروڑوں کی دہاڑی لگائی۔

مزید پڑھیں:‌اب ابصار عالم صحافیوں کو بتائیں گے ان کے کیرئیر کو کیا اچھا ہے

ابصار عالم کے صحافتی کیرئیر کی بات کر لی جائے تو یہ خود طاقتور حلقوں اور بڑی سیاسی جماعتوں جیسا کہ ن لیگ وغیرہ کے بہت قریبی رہے ہیں۔ابصار عالم نے چیئرمین پیمرا کے عہدے پر بھی مزے لئے اور حکومتوں سے فائدے اٹھائے۔
ان کا ایک پرانا کلپ اس وقت کا وائرل ہورہا ہے جب وہ ان عہدوں کے مزے اٹھا رہے تھے اور ایک صحافی نے ان سے سوال کیا تو وہ بولے کہ اب میں جرنلزم چھوڑ چکا ہوں یہ کلپ آپ ریکارڈ کر کے رکھ لیں۔
اب یہ کلپ وائرل ہورہا ہے تو ابصار صاحب غصہ کرتے ہیں۔ یہی نہیں وہ ماضی میں جب علیم خان پی ٹی آئی سے وابستہ تھے تو ان کے بارے کیا کچھ نہیں کہتے رہے ۔ لیکن اب ابصار عالم اسی علیم خان کے چینل میں ملازمت کر رہے ہیں اور اس بارے خاموش رہتے ہیں۔
اب بات کر لی جائے بیانیہ بنانےکی تو اگر چند صحافی پی ٹی آئی کی جانب رحجان رکھتے ہیں تو ان یوٹیوبرز اور صحافیوں کی تعداد کیا کم ہے جو ن لیگ اور دیگرپارٹیوں سے وابستہ ہیں۔
پاکستان کے درجنوں مین سٹریم میڈیا چینلز میں سے ایک بھی اس وقت پی ٹی آئی سے منسلک نہیں۔ یہی نہیں سرکاری ٹیلی ویژن پر بھی ایسے لوگ بھرتی کر لئے گئے ہیں جن کی کل قابلیت عمران خان کے خلاف غلاظت بھری زبان کا استعمال ہے۔
اگرچہ صحافت غیر جانبدار ہونے کا نام ہے لیکن پاکستان میں افسوسناک طور پر یہ عمل غیر جانبدار نہیں رہا۔
یہی وجہ ہے کہ اگر ابصار عالم کو چند صحافی پی ٹی آئی کے حق میں ںظر آرہے ہیں تو وہ خود کو شیشے میں اور باقی میڈیا کو عینک سے دیکھیں تو انہیں ایسے صحافی باآسانی مل جائیں گے جو ن لیگ اور دیگر جماعتوں کے آلہ کار ہیں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button